مالی ہی گلستاں کو جلانے میں لگے ہیں

5 1,036

دورۂ ویسٹ انڈیز کیلئے بھارتی ٹیم سے کپتان سمیت تین اہم کھلاڑیوں کی عدم موجودگی پر کسی نے اب تک سنجیدگی سے تشویش کا اظہار نہیں کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مہندر سنگھ دھونی ،سچن ٹنڈولکر اور ظہیر خان کو ٹیم میں شامل نہ کر کے بی سی سی آئی نے ایسی منافقانہ حرکت کی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ان تینوں کھلاڑیوں کو قومی ٹیم سے الگ رکھنے کا جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے یہ کھلاڑی مسلسل کرکٹ کھیل رہے ہیں اس لیے انہیں آرام دینا ضروری ہے۔ سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ صرف یہی تین کھلاڑی کیوں؟ ٹیم کے دیگر ارکان کو آرام کی ضرورت کیوں نہیں ہے؟ان تین کھلاڑیوں کی طرح تو پوری ٹیم کو بھی آرام دیا جانا چاہئے تھا۔ عالمی کپ کے اسکواڈ میں جو کھلاڑی شامل تھے انہیں بھی دورۂ ویسٹ انڈیز سے دور کیوں نہیں رکھا گیا؟ ان کھلاڑیوں کے اعصاب بھی تو گزشتہ چند مہینوں کے مسلسل کھیل کی وجہ سے جواب دے چکے ہوں گے۔ پھر یہ تفریق کیوں؟ یہ اور ایسے کئی اہم سوالات دورۂ ویسٹ انڈیز کیلئے بھارتی ٹیم کے انتخاب کے بعد میڈیا نے انتہائی بے توجہی کے ساتھ نظر انداز کر دئیے۔ آئی پی ایل کی ہنگامہ آرائی نے کسی کو یہ غور کرنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ آخر قومی ٹیم سے ان اہم کھلاڑیوں کو الگ کیوں رکھا گیا۔

بورڈ نے ان تین کھلاڑیوں کو آرام دئے جانے کی جو توجیہ پیش کی ہے وہ دراصل ایک ایسی منافقانہ چال ہے جو مستقبل میں قومی ٹیم کیلئے انتہائی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر واقعی بورڈ کو ان کھلاڑیوں کے آرام کی اتنی ہی فکر تھی تو عالمی کپ کے بعد انہیں آئی پی ایل سے دور رکھنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ کیا اب بورڈ کے سامنے بھی قوم کے مفاد کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی ہے جو کھلاڑیوں کو قومی ٹیم میں اپنی خدمات دینے کے بجائے ذاتی طور پر خریدی گئی ٹیموں میں کھیلنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اور اس کیلئے ان کے راستے بھی ہموار کئے جا رہے ہیں۔ انتہائی تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ بورڈ کے عہدیداران بھی اب آئی پی ایل کے نشے میں مخمور ہو چکے ہیں۔ جن لوگوں سے اس بات کی توقع تھی کہ وہ آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹ سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کریں گے وہی اب ان مسائل کو مزید پیچیدہ کرنے میں لگے ہیں۔

خود بورڈ کے سکریٹری این سری نواسن چنئی سپر کنگز کے مالک ہیں۔ کپتان مہندر سنگھ دھونی ان کی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں۔ بورڈ کے کسی رکن نے اُن سے اس بات کی وضاحت کیوں نہیں طلب کی کہ آخر کیوں مہندر سنگھ دھونی ان کی اپنی ذاتی ٹیم میں کھیلنے کے لیے تو دستیاب ہیں لیکن جب قومی ٹیم میں کھیلنے کی بات آئی تو انہیں آرام کی ضرورت پیش آ گئی۔ دھونی کو اگر واقعی آرام کی ضرورت تھی تو وہ عین عالمی کپ کے بعد ۔ اس وقت تو انہیں آئی پی ایل کے لئے فٹ قرار دیا گیا لیکن جب قومی ٹیم کو انکی ضرورت پیش آئی تو انہیں آرام کرایا جا رہا ہے۔ سچن ٹنڈولکر بھی ممبئی انڈینز کیلئے بڑے مزے میں کھیل رہے ہیں لیکن ویسٹ انڈیز جا کر کھیلنے سے وہ بھی قاصر ہیں۔

سچن اور دھونی جیسے کھلاڑیوں کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔یہ کھلاڑی اگر آئی پی ایل نہ کھیلتے تو بھی ان کے خزانوں میں کوئی فرق نہیں آتا۔ یہ بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ ایسے اہم کھلاڑیوں کو قومی ٹیم میں کھیلنے کیلئے بر وقت تیار رکھنے کی کوشش کی جائے ۔ انہیں آئی پی ایل کے وقت آرام کرا یا جا سکتا تھا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ بورڈ نے بھی آئی پی ایل کے آگے قومی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر پوری قوم کو گمراہ کرنے کی ایک ذلیل حرکت کی۔ سب سے تشویش کی بات یہ ہے کہ اگر بورڈ کا یہی رویہ آئندہ بھی برقرار رہا تو قومی ٹیم کا سرپرست و مربی کون ہوگا؟