عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: دو کالی آندھیاں

2 1,091

رنگین لباس، سفید گیندیں، مصنوعی روشنی میں مقابلے اور فیلڈنگ پابندیاں ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ کا لازمی جز بن گئیں تھیں، جب 1996ء میں برصغیر کو دوسری بار عالمی کپ کی میزبانی ملی۔ یہاں 9 ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کے علاوہ آئی سی سی ٹرافی 1994ء کی سرفہرست تین ٹیموں کو بھی موقع دیا گیا کہ وہ "کرکٹ کی جنگ عظیم" میں حصہ لیں اور یوں متحدہ عرب امارات، نیدرلینڈز اور کینیا کو پہلی بار کھیلنے کا موقع ملا۔ نیدرلینڈز تو تمام ہی مقابلوں میں شکست سے دوچار ہوا، جبکہ امارات نے بھی انہی کے خلاف واحد مقابلہ جیتا لیکن ان نوآموز ٹیموں کے لیے سب سے حوصلہ افزاء نتیجہ کینیا لے کر آیا۔ 29 فروری کے انوکھے دن، جو چار سالوں میں صرف ایک بار آتا ہے، کینیا اور ویسٹ انڈیز پونے کے نہرو اسٹیڈیم میں کھیلنے کے لیے اترے۔ ہاتھی اور چیونٹی کا یہ مقابلہ کینیا کی شاندار 73 رنز کی جیت کے ساتھ مکمل ہوا حالانکہ وہ پہلے بلے بازی کرتے ہوئے صرف 166 رنز پر ڈھیر ہوگیا تھا۔

میچ کا فیصلہ کن لمحہ جب برائن لارا وکٹوں کے پیچھے آؤٹ ہوئے اور مقابلہ ویسٹ انڈیز کی گرفت سے نکل گیا (تصویر: AP)
میچ کا فیصلہ کن لمحہ جب برائن لارا وکٹوں کے پیچھے آؤٹ ہوئے اور مقابلہ ویسٹ انڈیز کی گرفت سے نکل گیا (تصویر: AP)

چھٹے عالمی کپ میں ویسٹ انڈیز کاغذ پر تو بہت مضبوط تھا لیکن حقیقت میں ٹیم کا شیرازہ بکھرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ کپتان رچی رچرڈسن کا سنگھاسن ڈول رہا تھا۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ زمبابوے کے خلاف پہلا مقابلہ جیتنے کے بعد بھارت کے خلاف شکست اور سری لنکا میں نہ کھیل کر ایک اور مقابلہ گنوانے سے پوری ہوگئی تھی۔ اب اوسان بحال کرنے کے لیے کینیا کے خلاف مقابلہ ایک اچھی مشق تھی۔ جب رچرڈسن نے ٹاس جیتا اور کینیا کو بلے بازی کی دعوت دی تو ویسٹ انڈیز کے کرٹلی ایمبروز، کورٹنی واش، این بشپ اور دیگر گیندبازوں کا مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہ لگتی تھی۔ صرف 81 رنز پر اس کے 6 بلے باز میدان سے واپس آ چکے تھے لیکن یہ ویسٹ انڈیز تھا جس نے ناقص فیلڈنگ اور فاضل رنز کی مدد سے اس کی اننگز کو سہارا دیا۔ کینیا تو آخری اوور میں صرف 166 رنز پر ڈھیر ہوگیا لیکن اس میں سب سے بڑا حصہ کس کا تھا؟ فاضل رنز کا کہ جن کی تعداد 37 تھی، 14 وائیڈز اور 13 نو-بالز کے ساتھ۔

صرف 167 رنز کے ہدف کے تعاقب میں ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں نے جو کچھ کیا، اس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ سب سےپہلے کپتان رچی رچرڈسن رجب علی کی گیند پر بولڈ ہوئے اور کچھ ہی دیر میں ساتھی اوپنر شیرون کیمبل مارٹن سوجی کی گیند پر وکٹ دے گئے۔ اس کے باوجود حالات قابو میں دکھائی دیتے تھے کیونکہ اپنے وقت کے سب سے بڑے بیٹسمین برائن لارا میدان میں موجود تھے۔ جب مجموعہ 33 رنز تک پہنچا تو میچ کا فیصلہ کن مرحلہ آیا۔ رجب علی کی گیند پر برائن لارا للچائے، پچھلے قدموں پر اپنا روایتی ڈرائیو کھیلنے کی کوشش کی اور گیند ان کے بلے کو چھوتی ہوئی وکٹ کیپر طارق اقبال کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔ ویسٹ انڈیز صرف 33 رنز پر اپنے تین اہم ترین بلے بازوں سے محروم ہوچکا تھا۔ کینیا کے حوصلے بلند ہوگئے اور کیتھ آرتھرٹن کے رن آؤٹ کے بعد مورس اوڈمبے کے شاندار اسپیل نے شیونرائن چندرپال، جمی اینڈمز اور راجر ہارپر کی اننگز کا خاتمہ کردیا۔ کچھ ہی دیر بعد ویسٹ انڈیز کی اننگز صرف 93 رنز پر تمام ہوگئی اور 73 رنز کی بدترین اور شرمناک شکست ان کے نصیب میں لکھی گئی۔

صرف ایک مقابلے نے کینیا کو دنیائے کرکٹ کا موضوع بنادیا۔ افریقی کرکٹ میں ایک نئی قوت کے جنم لینے کی باتیں ہونے لگی اور بڑی توقعات وابستہ ہونے لگیں اور بدقسمتی سے کوئی بھی پوری نہیں ہوئی۔ سیاست اور بدعنوانی کینیا کی کرکٹ کو گھن کی طرح کھا گئی جبکہ ویسٹ انڈیز نے اس شکست سے بہت بڑا سبق سیکھا۔ اگلے مقابلے میں اس نے آسٹریلیا کو ہرایا اور کوارٹر فائنل میں پہنچا، جہاں عالمی کپ کا سدابہار 'فیورٹ' جنوبی افریقہ اس کے مقابل تھا۔ اسے بھی زیر کرتے ہوئے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی کہ جہاں مقابلے پر گرفت مضبوط ہونے کے بعد اسے آسٹریلیا سے 5 رنز کی مایوس کن شکست ہوئی اور یوں رچی رچرڈسن کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ویسٹ انڈیز کے نئے اور ممکنہ عروج کے امکانات ختم ہوگئے۔