عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: لمحوں کی خطا، صدیوں کی سزا

2 1,083

عالمی کپ اپنے چھٹے ایڈیشن تک پہنچ گیا تھا،کئی یادگار مقابلے کھیلے گئے لیکن عالمی کپ کا دامن ابھی تک ایک زبردست پاک-بھارت مقابلے سے خالی تھا۔ 1992ء میں دونوں ٹیمیں پہلی بار عالمی کپ میں آمنے سامنے آئیں لیکن کوئی خاص معرکہ آرائی دیکھنے کو نہيں ملی، بھارت باآسانی جیت گیا۔ پھر اس کی یہ کامیابی پاکستان کی دیوار سے لگے شیروں کی طرح عالمی کپ میں واپسی اور پھر عالمی چیمپئن بننے کی وجہ سے چھپ گئی۔ لیکن 1996ء کے عالمی کپ میں دونوں ٹیموں کا ایک بار پھر ٹکراؤ ہوا، ایک زیادہ بڑے، زیادہ اہم اور یادگار ترین باہمی مقابلوں میں سے ایک میں۔

جب پاکستان حاوی تھا، عین اس وقت عامر سہیل کی غیر ضروری حرکت بھارت کو مقابلے میں واپس لے آئی  (تصویر: Getty Images)
جب پاکستان حاوی تھا، عین اس وقت عامر سہیل کی غیر ضروری حرکت بھارت کو مقابلے میں واپس لے آئی (تصویر: Getty Images)

بنگلور کے ایم چناسوامی اسٹیڈیم میں موجود 35 ہزار تماشائی خوش نصیب تھے کہ جنہوں نے عالمی کپ 1996ء کے دوسرے کوارٹر فائنل کی ہر گیند کا میدان میں بیٹھ کر لطف اٹھایا۔ پہلے بھارت کی اننگز کے ایک، ایک لمحے کا کہ جہاں نوجوت سنگھ سدھو کی 93 رنز کی اننگز اور سچن تنڈولکر کے ساتھ 90 رنز کی افتتاحی شراکت داری نے میزبان کو مضبوط بنیاد فراہم کی اور آخر میں اجے جدیجا کے 25 گیندوں پر 45 رنز کا بھی کہ جو بھارت کو 287 رنز تک پہنچاگئے۔ پھر دم سادھے پاکستان کی اننگز کے برق رفتار آغاز کو دیکھا اور اس کے بعد عامر سہیل اور وینکٹش پرساد کے الجھنے کے مناظر کو بھی کہ جنہوں نے یک بیک مقابلے کا پانسہ پلٹ دیا اور پھر بھارت کی یادگار جیت کا جشن منایا۔

پاکستان اس اہم مقابلے کے لیے اپنے کپتان اور اہم ترین گیندباز وسیم اکرم کے بغیر میدان میں اترا تھا کہ جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ زخمی ہوگئے ہیں۔ اب باؤلنگ میں بنیادی ذمہ داری وقار یونس کے کاندھوں پر تھی جو بھارتی اننگز کے اختتامی لمحات میں اپنی زندگی کے بدترین لمحے سے گزرے، آخری دو اوورز میں جدیجا کے ہاتھوں 40 رنز کھائے جو بعد میں فیصلہ کن ثابت ہوئے۔

اب پاکستان کو روایتی حریف کے خلاف اسی کے میدان میں 288 رنز کا ہدف درپیش تھا، وہ بھی صرف 49 اوورز میں۔ دفاعی چیمپئن پاکستان کمزور نہیں تھا۔ بلاشبہ ٹورنامنٹ کی بہترین بیٹنگ اور باؤلنگ لائن اس کے پاس تھی۔ اس لیے اس نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ قائم مقام کپتان عامر سہیل اور سعید انور ایک بڑے ہدف کو دیکھتے ہوئے مصمم ارادوں کے ساتھ میدان میں اترے اور ابتدائی 10 اوورز ہی میں 84 رنز بنا ڈالے۔ میدان میں اتنی خاموشی تھی کہ سوئی بھی پھینکی جاتی تو شاید اس کی آواز بھی سنائی دیتی۔ سعید انور کی 32 گیندوں پر 48 رنز کی اننگز میں دو شاندار چھکے اور پانچ چوکے شامل تھے۔ ان کے لوٹنے کے بعد بھی عامر سہیل حریف گیندبازوں پر حاوی دکھائی دیے۔ انہوں نے مقامی کھلاڑی وینکٹش پرساد کی ایک گیند کو پلک جھپکتے میں ایکسٹرا-کور باؤنڈری تک پہنچایا۔ گیند بہت اچھی طرح عامر سہیل کے بلّے پر آ رہی تھی، وہ سمجھنے لگے کہ کھیل اب موم کی ناک ہے، جسے وہ اپنی مرضی کے مطابق موڑ سکتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ پاکستان گو کہ بہت تیزی سے 113 رنز تک پہنچا تھا لیکن ابھی 175 رنز بنانے کا بڑا مرحلہ باقی تھا۔ پاکستان کو ٹھنڈے مزاج سے اور سر جھکا کر کھیلنے کی ضرورت تھی۔ لیکن عامر سہیل قائدانہ ذمہ داری اور بیٹنگ پر توجہ کو کھو بیٹھے اور براہ راست باؤلر پرساد سے الجھے۔ یہ چوکا لگاتے ہی انہوں نے باؤنڈری لائن کی طرف اشارہ کرکے گیندباز کو کہا کہ "وہ رہی گیند، جاؤ، اٹھا کر لاؤ۔" پرساد دانت پیس کر رہ گئے لیکن انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ عامر اب بلے بازی پر توجہ کھو رہے ہیں۔ اگلی گیند تقریباًاسی مقام پر گری لیکن عامر سہیل کیونکہ پہلے ہی سے اس گیند کو بھی باؤنڈری تک پہنچانے کا ارادہ کر چکے تھے اس لیے وکٹیں چھوڑ کر وہی شاٹ دہرانے کی کوشش کی، ناکام ہوئے اور گیند آف اسٹمپ کو لٹا گئی۔

مغلظات کا ایک طوفان پرساد کے منہ سے نکلا اور عامر سہیل کو بلّا بغل میں دبا کر واپس آنا پڑا۔ میدان میں زندگی کی لہر دوڑ گئی، امید تو شاید اس وقت بھی اتنی زیادہ کسی کو نہیں تھی لیکن کچھ ہی دیر بعد انضمام الحق اور اعجاز احمد کی وکٹیں گرنے سے مقابلہ بھارت کی گرفت میں چلا گیا۔ پھر تجربہ کار، لیکن اپنے کیریئر کے آخری ایام گزارنے والے، جاوید میانداد اور سلیم ملک کے لیے بڑھتے ہوئے درکار رن اوسط کو حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ 231 رنز پر راشد لطیف کے آؤٹ ہوتے ہی آخری مستند بلے باز بھی لوٹ آیا اور پاکستان 49 اوورز میں 248 رنز ہی بنا سکا۔ بھارت 39 رنز سے مقابلہ جیت گیا، یعنی ہدف پاکستان سے اتنا ہی دور تھا جتنے رنز وقار یونس نے اپنے آخری دو اوورز میں کھائے تھے۔

اس یادگار کامیابی کا بھارت میں وہ شاندار جشن منایا گیا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا گویہ عالمی کپ جیت لیا گیا ہے۔ جبکہ پاکستان میں شام غریباں تھی، پورے ملک میں غم و غصے کی زبردست لہر دیکھنے کو ملی۔ جتنی بڑی تعداد میں ٹیلی وژن سیٹ اس روز "شہید" ہوئے، اتنے شاید ملکی تاریخ میں کبھی نہ ٹوٹے ہوں۔ بپھرے ہوئے تماشائیوں نے کپتان وسیم اکرم کے گھر پر پتھراؤ کیا، جن کے خیال میں وہ جان بوجھ کر یہ مقابلہ نہیں کھیلے۔ مختلف شہروں میں پاکستانی ٹیم کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ وسیم اکرم اور دیگر کھلاڑیوں کے پتلے اور کرکٹ بیٹ نذر آتش ہوئے اور وہ یقین جو چار سال قبل 1992ء میں پاکستان کی جیت کے ساتھ پیدا ہوا تھا، 9 مارچ 1996ء کو بکھر گیا۔

پاکستان کے لیے یہ شکست اتنی بڑی تھی کہ اس کے بعد سے آج تک وہ بھارت کے خلاف عالمی کپ میں جیت نہیں سکا۔ جیتا تو ویسے پہلے بھی نہیں تھا لیکن 1999ء، 2003ء اور سب سے بڑھ کر آخری بار 2011ء میں ہونے والی شکستیں عالمی کپ کی تاریخ میں پاکستان کے دامن پر سیاہ دھبے کی طرح ہیں۔ اب 15 فروری 2015ء کو ایڈیلیڈ میں پاکستان کو اس داغ کو دھونے کا موقع ملے گا جبکہ بھارت روایت برقرار رکھنے کا خواہشمند ہوگا۔

ویسے بھارت کے لیے پاکستان کے لیے خلاف یہ جیت چار دن کی چاندنی ثابت ہوئی۔ سری لنکا کے مقابلے میں ہونے والے سیمی فائنل میں اسے بہت بری طرح شکست ہوئی۔ اتنے بدترین انداز میں کہ شاید ہی تاریخ میں کسی ٹیم نے ناک آؤٹ مرحلے میں اس بری طرح ہار کھائی ہو۔ اس سیمی فائنل کا مکمل احوال ہم "عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات" کے سلسلے کی آئندہ قسط میں پیش کریں گے۔ تب تک آپ اس یادگار پاک-بھارت کے محفوظ لمحات سے لطف اٹھائیں۔