عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: دوچار ہاتھ جب لب بام رہ گیا

0 1,118

پاکستان کے خلاف ایک یادگار جیت بھی بھارت کو عالمی کپ کے سیمی فائنل سے آگے نہ لے جا سکی لیکن ابھی یہ طے ہونا باقی تھا کہ لاہور میں سری لنکا کے خلاف فائنل کون کھیلے گا جس کے لیے 14 مارچ 1996ء کو موہالی میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز عالمی کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں مدمقابل آئے۔

رچی رچرڈسن ایک اینڈ سے دیکھتے ہی رہ گئے اور ویسٹ انڈیز صرف 37 رنز پر آخری 8 وکٹیں گنوا کر سیمی فائنل پانچ رنز سے ہار گیا (تصویر: Getty Images)
رچی رچرڈسن ایک اینڈ سے دیکھتے ہی رہ گئے اور ویسٹ انڈیز صرف 37 رنز پر آخری 8 وکٹیں گنوا کر سیمی فائنل پانچ رنز سے ہار گیا (تصویر: Getty Images)

یہ وہ وقت تھا جب ویسٹ انڈیز کا زریں عہد اختتامی ہچکیاں لے رہا تھا۔ کپتان اور کھلاڑیوں کے درمیان بے اعتمادی عروج پر تھی لیکن کینیا کے خلاف بدترین شکست نے متحد ہونے کا موقع فراہم کیا اور ٹیم آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف دو شاندار فتوحات کے ساتھ سیمی فائنل تک پہنچ گئی۔ دوسری جانب آسٹریلیا نے بھارت کے خلاف یادگار جیت کی بدولت ویسٹ انڈیز سے گروپ مقابلے کی شکست برداشت کرگیا اور کوارٹر فائنل میں نیوزی لینڈ کو باآسانی زیر کیا اور اب ایک بار پھر 'کالی آندھی' کے مقابل تھا۔

سیمی فائنل میں آسٹریلیا نے ٹاس جیتا، پہلے بلے بازی سنبھالی اور صرف 15 رنز پر چار اہم ترین بلے بازوں سے محروم ہوگیا۔ اس سے زیادہ برے آغاز کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کرٹلی ایمبروز اور این بشپ کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے مارک واہ، مارک ٹیلر، رکی پونٹنگ اور اسٹیو واہ آؤٹ ہوچکے تھے حالانکہ مارک ٹیلر کو سلپ میں کیچ چھوٹنے کی صورت میں زندگی بھی ملی تھی لیکن وہ اس کا کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ لیکن یہاں مائیکل بیون اور اسٹورٹ لا نے اپنا کردار ادا کیا اور پانچویں وکٹ پر 138 رنز بناکر کسی حد تک حالات سنبھال لیے۔ اسٹورٹ لا نے غالباً اپنے کرکٹ کیریئر کی بہترین اننگز کھیلی جس میں انہوں نے 105 گیندوں پر 72 رنز بنائے جبکہ بیون نے 110 گیندوں پر 69 رنز بنا کر مرد بحران کی شناخت قائم کی۔ آخر میں این ہیلی کے 28 گیندوں پر 31 رنز بھی مجموعے کو 207 رنز تک پہنچا سکے۔

پہلی اننگز کے اختتام تک پلڑے کا جھکاؤ واضح طور پر ویسٹ انڈیز کے حق میں تھا اور شیونرائن چندرپال اور برائن لارا کی اننگز نے شک و شبہ کی گنجائش ہی ختم کردی۔ برائن لارا نے 45 گیندوں پر اتنے ہی رنز کی تیز رفتار اننگز کھیلی جبکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ چندرپال مقابلے کو آسٹریلیا سے دور لے جا رہے تھے۔

ویسٹ انڈیز کو آخری 9 اوورز میں صرف 43 رنز کی ضرورت تھی اور اس کی پوری 8 وکٹیں باقی تھیں یعنی جیت یقینی تھی لیکن کرکٹ کھیل ہی ایسا ہے کہ اچانک بازی پلٹ جاتی ہے۔ جیسے ہی شیونرائن چندرپال آؤٹ ہوئے مقابلہ ویسٹ انڈیز کی گرفت سے ریت کی طرح نکلنے لگا۔ چندرپال 126 گیندوں پر 80 رنز بنانے کے بعد اپنا پسینہ ہی خشک نہ کرپائے کہ گلین میک گرا نے راجر ہارپر کی وکٹ بھی حاصل کرلی۔

آسٹریلیا کے اسپن گیندباز شین وارن ایسے گیندباز تھے جو مقابلے کو پلٹ دیتے تھے اور انہوں نے اس مقابلے میں یہ بات ثابت بھی کی۔ انہوں نے تین اوورز میں صرف 6 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں جن میں اوٹس گبسن، جمی ایڈمز اور این بشپ شامل تھے۔ ویسٹ انڈیز کی واحد امید کپتان رچی رچرڈسن سے وابستہ تھی جو آخری سپاہی کے طور پر کھڑے تھے۔
آخری اوور میں ویسٹ انڈیز کو 10 رنز کی ضرورت تھی اور کپتان رچرڈسن کے چوکے نے مقابلے کو پھر برابر کی سطح پر کھڑا کردیا۔ یہاں ایمبروز کے رن آؤٹ سے بھی زیادہ غلط یہ ہوا کہ رچی رچرڈسن اسٹرائیک کھوبیٹھے اور کورٹنی واش کلین بولڈ ہوگئے یوں ویسٹ انڈیز صرف پانچ رنز سے مقابلہ ہار گیا۔ یعنی ویسٹ انڈیز نے صرف 37 رنز کے اضافے پر اپنی آخری 8 وکٹیں گنوائیں اور یوں عالمی اعزاز کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔

اس کے ساتھ ہی ویسٹ انڈیز کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ رچی رچرڈسن نے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا اور اس کے بعد سے آج تک ویسٹ انڈیز کبھی کسی عالمی کپ کے سیمی فائنل تک نہیں پہنچ سکا اور نہ ہی آج تک ویسٹ انڈیز کرکٹ دوبارہ سر اٹھا سکی ہے۔