عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: زمبابوے کے سنہرے دن

4 1,091

عالمی کپ 1999ء کی کہانی زمبابوے کی شاندار کارکردگی کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔ 'سرخ پوش' فلاور برادران،نیل جانسن، پال اسٹرینگ اور ہیتھ اسٹریک کی کارکردگی کو بھلا کون بھلا سکتا ہے جنہوں نے ایک مہینے تک انگلستان کے میدانوں پر راج کیا اور دنیائے کرکٹ کےبڑے بڑےناموں کو دھول چٹائی۔

نیل جانسن کی جنوبی افریقہ کے خلاف آل راؤنڈ کارکردگی بھلا کیسے بھلائی جا سکتی ہے؟ (تصویر: Getty Images)
نیل جانسن کی جنوبی افریقہ کے خلاف آل راؤنڈ کارکردگی بھلا کیسے بھلائی جا سکتی ہے؟ (تصویر: Getty Images)

انگلستان میں ہونے والے اس عالمی کپ میں پہلی بار سپر سکسز کا مرحلہ متعارف کروایا گیا جس کے لیے 8 مضبوط حریف پہلے سے میدان میں موجود تھے۔ زمبابوے کا دور پرے تک کوئی امکان نہ تھا اور کینیا کے خلاف مقابلے میں آسان جیت کے بعد بھی کسی نے اسے سنجیدہ نہ لیا۔ لیکن 19 مئی 1999ء کو لیسٹر کے مقام پر بھارت سے ہونے والے میچ نے ماہرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور ساتھ ہی خود زمبابوے کے کھلاڑیوں میں یہ یقین پیدا کیا کہ وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ بلے بازی کی دعوت ملنے کے بعد فلاور برادران کی شاندار بلے بازی نے زمبابوے کو 252 رنز تک پہنچایا۔ اینڈی فلاور 85 گیندوں پر 68 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے جبکہ گرانٹ فلاور نے 45 رنز بنائے۔ 144 رنز پر چار کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کے بعد یہ اینڈی فلاور کی ناٹ آؤٹ اننگز تھی جس نے زمبابوے کے لیے پورے 50 اوورز کھیلنا ممکن بنایا۔

بھارت کو پہلا نقصان یہ ہوا کہ اس کو یہ ہدف 46 اوورز میں پورا کرنا تھا لیکن پھر بھی وہ اس وقت تک بہترین مقام پر تھا جب تک سداگپن رمیش کریز پر موجود تھے۔ چوتھی وکٹ پر اجے جدیجا کے ساتھ ان کی 99 رنز کی شراکت داری نے صرف 3 وکٹوں پر بھارت کے اسکور کو 155 رنز تک پہنچا دیا تھا۔ یہاں گرانٹ فلاور نے رمیش کی 55 رنز کی اننگز کا خاتمہ کیا اور کچھ ہی دیر بعد ہیتھ اسٹریک نے جدیجا کو نصف سنچری سے قبل ہی جالیا۔ پھر اجیت آگرکر رن آؤٹ ہوئے اور ناین مونگیا انتہائی غیر ذمہ داری کے ساتھ بولڈ، عین اس وقت جب بھارت کو 5 اوورز میں صرف تین وکٹوں کے ساتھ 34 رنز کی ضرورت تھی جب رابن سنگھ اور جواگل سری ناتھ نے حتمی وار کرنے کی کوشش کی۔ سری ناتھ کے دو شاندار چھکوں نے بھارت کے تماشائیوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ جب دو اوورز میں صرف 9 رنز کی ضرورت تھی تو گیند زمبابوے کے پہلے سیاہ فام کھلاڑی ہنری اولنگا کو تھمائی گئی۔ دوسری ہی گیند پر انہوں نے رابن سنگھ کو کور پر کھڑے کپتان ایلسٹر کیمبل کے ہاتھو‍ں آؤٹ کرا دیا۔ بھارت کی باقی دو وکٹوں کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا اور اسی اوور میں ثابت بھی ہوا کہ ان کے ہاتھ پیر پھول چکے ہیں۔ پانچویں گیند پر تمام تر ذمہ داری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سری ناتھ نے اندھادھند بلّا گھمایا اور گیند ان کی وکٹیں بکھیر گئی۔ اولنگا ناقابل یقین کو یقینی بنانے والے تھے اور آخری گیند پر وینکٹش پرساد کو ایل بی ڈبلیو کرکے مقابلے کا فیصلہ کردیا۔ زمبابوے 3 رنز سے جیت چکا تھا۔جنوبی افریقہ کے بعد اس کے پڑوسی زمبابوے سے شکست نے بھارت کے لیے عالمی کپ کے آغاز کو بھیانک بنا دیا تھا۔

زمبابوے کی شاندار کارکردگی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ اس نے وارسسٹر میں دفاعی چیمپئن سری لنکا کو ناکوں چنے چبوائے۔ 198 رنز کے ہدف کا دفاع کرتے ہوئے زمبابوے کے گیندبازوں نے 157 رنز پر ہی سری لنکا کے 6 بلے باز ٹھکانے لگا دیے تھے لیکن وکٹ کیپر رمیش کالووتھارنا اور آل راؤنڈر چمندا واس کی 41 رنز کی ناقابل شکست رفاقت نے زمبابوے کو ایک اور جیت سے محروم کردیا۔

اگلے مقابلے میں انگلستان کے ہاتھوں شکست کے بعد زمبابوے نے وہ کارنامہ انجام دیا جو ٹورنامنٹ میں سری لنکا اور انگلستان تک نہ کرسکے تھے یعنی جنوبی افریقہ کو شکست کا مزا چکھانا۔ سپر سکسز مرحلے سے قبل اپنے آخری مقابلے میں زمبابوے نے نیل جانسن کی آل راؤنڈر کارکردگی کی بدولت 'پروٹیز' کو بری طرح شکست دی۔ پہلے جانسن کے 76 رنز نے زمبابوے کے مجموعے کو 233 رنز تک پہنچایا اور پھر پہلی ہی گیند پر گیری کرسٹن کی وکٹ حاصل کرنے کے بعد ژاک کیلس اور ہنسی کرونیے کو بھی ٹھکانے لگایا یہاں تک کہ صرف40 رنز پر جنوبی افریقہ کے 6 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے۔ ڈیرل کلینن، شان پولاک اور آخر میں لانس کلوزنر نے اپنی پوری کوشش کرلی لیکن اس مقام سے ٹیم کو نہ بچا سکے اور 48 ویں اوور میں زمبابوے نے آخری بلے باز کو ٹھکانے لگا کر مقابلہ 48 رنز سے جیت لیا۔ یوں زمبابوے انگلستان کو روندتا ہوا پہلی بار عالمی کپ کے اگلے مرحلے تک پہنچا۔

جنوبی افریقہ کو دی گئی اس شکست کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ اگر جنوبی افریقہ یہاں شکست نہ کھاتا تو شاید اس کا سیمی فائنل آسٹریلیا سے نہ پڑتا۔ اور۔۔۔۔۔۔۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ۔

بہرحال ، زمبابوے سپر سکسز میں پہنچا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے مقابلے میں خوش قسمتی سے ایک پوائنٹ لینے میں کامیاب ہوا کہ جس میں صرف 175 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد اس وقت بارش ہوگئی جب نیوزی لینڈ تین وکٹوں پر 70 رنز بنا چکا تھا۔ خدا کا کرنا دیکھیے کہ متبادل دن، یعنی اگلے روز بھی بارش کی وجہ سے میچ ممکن نہ ہوسکا اور یوں دونوں ٹیموں کو ایک، ایک پوائنٹ ملا۔ لیکن یہ خوش نصیبی زیادہ دن نہیں چلی۔ آسٹریلیا اور پاکستان نے اسے بری طرح شکست دے کر عالمی کپ سے باہر کردیا۔

آخر میں فائنل کھیلنے والے ان دونوں ممالک کے خلاف زمبابوے کو بڑے فرق سے شکستیں ہوئی خاص طور پر پاکستان کے خلاف آخری مقابلے کا اختتام بہت یہ مایوس کن انداز سے ہوا۔ 272 رنز کے ہدف کے تعاقب میں وہ صرف 123 رنز پر آؤٹ ہوا جس میں حتمی ضرب ثقلین مشتاق کی ہیٹ ٹرک نے لگائی۔

زمبابوے کا خوابناک سفر تو اپنے اختتام کو پہنچا لیکن درحقیقت یہ محض ایک سنگ میل تھا۔ اس کارکردگی نے بین الاقوامی کرکٹ میں زمبابوے کو ایک نیا مقام عطا کیا لیکن یہ تمام تر محنت اور ریاضت اکارت چلی گئی۔ دہائیوں کی محنت محض چند سالوں میں برباد ہوگئی۔ کھیل کے معاملات میں حکومت کا بڑھتا ہوا عمل دخل ملکی کرکٹ کو دیمک کی طرح چاٹ گیا یہاں تک کہ 2003ء میں عالمی کپ کے دوران 'جمہوریت کی موت' کا سوگ منانے کے انوکھے مظاہرے کے ساتھ زمبابوے کرکٹ کا سنہرا دور اختتام کو پہنچا۔

لیکن ۔۔۔۔۔ عالمی کپ 1999ء میں زمبابوے کے کھلاڑیوں کی تسلسل کے ساتھ عمدہ کارکردگی شائقین کے ذہنوں میں ہمیشہ تازہ رہے گی۔