عالمی کپ، رنگین ملبوسات کی تاریخ

2 1,344

عالمی کپ کا آغاز 1975ء میں ہوا جب ایک روزہ کرکٹ کے آغاز کو ہی محض چار سال ہوئے تھے۔ لیکن اس ٹورنامنٹ کی کامیابی نے ثابت کردیا کہ ایک روزہ کرکٹ مستقبل ہے۔اس کو دیکھتے ہوئے آسٹریلیا کے مشہورٹیلی وژن چینل نائن نیٹ ورک کے کیری پیکرکے ذہن میں ایک اچھوتا خیال کوندا۔ انہوں نے 1977ء میں ورلڈ سیریز کے نام سے ایک سلسلے کا آغاز کیا جس نے ایسی جدتیں پیش کیں، جنہیں ابتداء میں تو بین الاقوامی کرکٹ نے سنجیدہ نہیں لیا لیکن آج وہ کھیل کا لازمی جز سمجھی جاتی ہیں، خاص طور پر رنگین ملبوسات۔ البتہ بین الاقوامی کرکٹ میں رنگین ملبوسات کو بہت دیر سے اختیار کیا گیا۔ 1979ء، 1983ء اور 1987ء کے عالمی کپ روایتی سفید ملبوسات میں اور سرخ گیند کے ساتھ کھیلے گئے لیکن 1992ء میں جب کرکٹ کا عالمی کپ پہلی بار آسٹریلیا پہنچا تو سب روایات کو توڑتے ہوئے پہلی بار بین الاقوامی کرکٹ میں رنگین ملبوسات، سفید گیندوں اور مصنوعی روشنیوں کا استعمال کیا گیا۔

عالمی کپ 1992ء کی اس کٹ کا مقابلہ شاید ہی کوئی اور کرسکے، بہت عمدہ! (تصویر: PA Photos)
عالمی کپ 1992ء کی اس کٹ کا مقابلہ شاید ہی کوئی اور کرسکے، بہت عمدہ! (تصویر: PA Photos)

یہیں سے کرکٹ میں رنگین ملبوسات کے دور کا آغاز ہوا جو آج کئی منازل طے کر چکا ہے۔عالمی کپ میں ٹیموں کے استعمال میں رہنے والی کٹ ہمیشہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے لیکن جو شہرت 1992ءء کے عالمی کپ کے ملبوسات نے حاصل کی شاید ہی کسی اور کو ملی ہو۔

آسٹریلیا کے لیے پیلے، نیوزی لینڈ کے لیے سرمئی، انگلستان کے لیے آسمانی، بھارت کے لیے بنفشی، سری لنکا کے لیے نیلا، زمبابوے کے لیے سرخ، ویسٹ انڈیز کے لیے عنابی، جنوبی افریقہ کے لیے سبز اور عالمی کپ جیتنے والے پاکستان کے لیے ہلکا سبز رنگ منتخب کیا گیا۔ کاندھوں پر سرخ، سفید، سبز اور نیلے رنگ کی دھاریاں تھیں جبکہ ٹیم کا نام سامنے کے رخ پر اور پشت پر کھلاڑی کا نام لگا تھا۔

چار سال بعد جب 1996ء میں پاکستان اور بھارت نے عالمی کپ کی میزبانی کی تو اس وقت تک رنگین ملبوسات خاصے رواج پا چکے تھے۔ تمام تو نہیں لیکن ایک روزہ کرکٹ کے بیشتر مقابلے انہی رنگین ملبوسات میں کھیلے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ رنگین ملبوسات اور مصنوعی روشنی میں کرکٹ برصغیر میں بھی پہنچی۔

رنگوں سے ہٹ کر یکساں کٹ کے زمانے کی آخری یادگار، عالمی کپ 1996ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم کا لباس (تصویر: Getty Images)
رنگوں سے ہٹ کر یکساں کٹ کے زمانے کی آخری یادگار، عالمی کپ 1996ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم کا لباس (تصویر: Getty Images)

عالمی کپ 1996ء میں پاکستان نے پچھلی بار سے ہٹ کر گہرے سبز اور بھارت نے ہلکے نیلے رنگ کا انتخاب کیا جبکہ بیشتر ٹیموں نے انہی رنگوں کے ساتھ عالمی کپ کھیلا۔

اس عالمی کپ کے لیے بھی تمام ملبوسات ایک ہی طرز کے تھے اور فرق محض رنگوں کے انتخاب کا تھا۔ سامنے کے رخ پر ایک پٹی کے اندر ملک کا نام جبکہ پشت پر ویسے اسی رنگ کے ساتھ کھلاڑی کا نام درج تھا جبکہ اس پٹی کے اوپر ایک چھوٹی ست رنگی پٹی اور نیچے دو رنگی دھاریاں موجودتھیں۔ تمام تر کوشش کے باوجود ان ملبوسات نے وہ حیثیت نہیں پائی جو دیگر پہلے اور بعد میں آنے والے عالمی کپ ٹورنامنٹس میں استعمال ہونے والی کٹس کو ملی۔

عالمی کپ 1999ء سے ایک نئے عہد کا آغاز ہوا، انفرادی اور ڈیزائن عناصر کی حامل کٹس کا۔ پاکستان کی نمایاں کارکردگی نے اس کٹ کو لافانی بنا دیا (تصویر: AFP)
عالمی کپ 1999ء سے ایک نئے عہد کا آغاز ہوا، انفرادی اور ڈیزائن عناصر کی حامل کٹس کا۔ پاکستان کی نمایاں کارکردگی نے اس کٹ کو لافانی بنا دیا (تصویر: AFP)

1999ء میں عالمی کپ 16 سال بعد ایک بار پھر اپنے "گھر" یعنی انگلستان پہنچا اور یہاں سے ایک روزہ کرکٹ میں کھلاڑیوں کے زیر استعمال کپڑوں میں بڑی جدت دیکھنے کو ملی۔ صرف رنگوں کے فرق کے بجائے اس مرتبہ ہر ٹیم کے لیے ایک الگ ڈیزائن کا انتخاب بھی کیا گیا۔ پاکستان کی کٹ پر ایک بڑا سبز رنگ کا ستارہ نصب تھا جبکہ آخر میں چیمپئن بننے والے آسٹریلیا کے لباس پر چار ستارے موجود تھے، جو ان کے پرچم کی علامت ہیں۔ میزبان انگلستان کی کٹ پر ان کا مشہور تین شیروں والا نشان، بھارت کے لباس پر بھارتی بورڈ کے لوگو سے اخذ کیا گیا ڈیزائن اور دفاعی چیمپئن سری لنکا کے لیے قومی پرچم پر موجود شیرکا انتخاب کیا گیا۔ اسی طرح مختلف ٹیموں نے مختلف علامتوں کا انتخاب کیا اور یوں پہلی بار جداگانہ اور حقیقی شناخت رکھنے والے کرکٹ ملبوسات عالمی منظرنامے پر دکھائی دیے۔

سادہ و پرکار، عالمی کپ 2003ء میں پاکستان کے باہر ہونے کے ساتھ ہی اس خوبصورت کٹ کا بھی خاتمہ ہوگیا (تصویر: Reuters)
سادہ و پرکار، عالمی کپ 2003ء میں پاکستان کے باہر ہونے کے ساتھ ہی اس خوبصورت کٹ کا بھی خاتمہ ہوگیا (تصویر: Reuters)

جنوبی افریقہ میں ہونے والے 2003ء میں ہونے والے عالمی کپ میں بنائے گئے ملبوسات میں سادگی کا عنصر نمایاں تھا۔ بیشتر ٹیموں کی کٹس میں سیدھی یا کسی اور سمت میں پٹیوں کا استعمال کیا گیا تھا البتہ جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، بھارت اور نیدرلینڈز نے اپنی کٹ پر ڈیزائن عنصر شامل کیا تھا۔ پاکستان کے لیے گہرے سبز رنگ کی کٹ اور کاندھوں اور بغلوں میں پیلے رنگ کی پٹیاں منتخب کی گئیں اور جس طرح پاکستان اس مہم میں بری طرح ناکام ہوا، اس طرح یہ خوبصورت کٹ بھی ماضی کے دھندلکوں میں چھپ گئی۔

اس کٹ کے ساتھ پاکستان کی بھیانک یادیں وابستہ ہیں، آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست، عالمی کپ کے پہلے مرحلے میں اخراج اور سب سے بڑھ کر باب وولمر کی موت (تصویر: AFP)
اس کٹ کے ساتھ پاکستان کی بھیانک یادیں وابستہ ہیں، آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست، عالمی کپ کے پہلے مرحلے میں اخراج اور سب سے بڑھ کر باب وولمر کی موت (تصویر: AFP)

2007ء میں عالمی کپ پہلی، اور آخری بار، ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر کھیلا گیا۔ اس مرتبہ استعمال ہونے والے ملبوسات ایک مرتبہ پھر سادگی کے حامل تھے۔ اکا دکا ٹیموں کی کٹ پر کوئی ڈیزائن عنصر دیکھا گیا۔ ورنہ وہی سیدھی، آڑی، ترچھی اور مختلف رنگوں کی پٹیاں ہی دیکھنے کو ملیں۔ سری لنکا اور نیوزی لینڈ کی کٹس بہت خوبصورت دکھائی دیں جن پر ان کے روایتی نشان موجود تھے جبکہ پاکستان کی تین رنگوں کی کٹ بھی بہت نمایاں تھی۔ بنیادی طور پر گہرے سبز رنگ کی حامل کٹ پر ہلکے ہرےاور پیلے رنگ کی پٹیاں بھی شامل کی گئی تھیں۔

توقعات سے کہیں بڑھ کر کارکردگی کی بدولت سیمی فائنل میں بھارت کے ہاتھوں شکست کے باوجود قوم نے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کو سراہا اور ساتھ ہی یہ خوبصورت کٹ لازوال حیثیت اختیار کرگئی (تصویر: AFP)
توقعات سے کہیں بڑھ کر کارکردگی کی بدولت سیمی فائنل میں بھارت کے ہاتھوں شکست کے باوجود قوم نے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کو سراہا اور ساتھ ہی یہ خوبصورت کٹ لازوال حیثیت اختیار کرگئی (تصویر: AFP)

اس عالمی کپ کے ساتھ ہی بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے کھلاڑیوں کے لیے ملبوسات تیار کرنے کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اب تمام ٹیمیں یہ کام مختلف ملبوسات تیار کرنے والے اداروں کو دیتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کی کٹ بنانے کا ذمہ دار ادارہ 'سی اے اسپورٹس' ہے جبکہ بھارت کا لباس معروف ادارے نائیکی، آسٹریلیا کا ایزکس اور انگلستان اور جنوبی افریقہ کا ایڈیڈاس تیار کرتا ہے۔

پاکستان نے عرصہ دراز کے بعد کسی عالمی کپ کے لیے ہلکے سبز رنگ کا انتخاب کیا ہے۔ کیا یہ رنگ پاکستان کی قسمت بدلے گا؟ دیکھتے ہیں 15 فروری کے بعد کیا ہوتا ہے؟

کیا عرصہ بعد 2015ء کے عالمی کپ میں ہلکے سبز رنگ کا استعمال پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہوگا؟ یہ وقت بتائے گا (تصویر: AFP)
کیا عرصہ بعد 2015ء کے عالمی کپ میں ہلکے سبز رنگ کا استعمال پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہوگا؟ یہ وقت بتائے گا (تصویر: AFP)