عالمی کپ: کیا جنوبی افریقہ اس بار نہیں "چوکے" گا

0 1,006

ایک اور عالمی کپ، جہاں ایک مرتبہ پھر جنوبی افریقہ 'فیورٹ' ہے لیکن کیا وہ جیتی ہوئی بازی ہارنے کی عادت سے چھٹکارہ پائے گا؟ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہی کہا جا رہاہے کہ یہ داغ مٹانے کا جنوبی افریقہ کے پاس بہترین موقع ہے۔ 1992ء، 1999ء اور 2007ء میں سیمی فائنل اور 1996ء اور 2011ء میں کوارٹر فائنل کی صورت میں پہلے ہی ناک آؤٹ مقابلے میں اپنی ناک کٹوانے والا جنوبی افریقہ ہمیشہ مضبوط امیدوار ہوتا ہے، بس کبھی قسمت، کبھی اس کی اپنی حرکت اسے باہر کردیتی ہے۔ اس وقت دنیا کے بہترین بلے باز، گیندباز اور میدان باز جنوبی افریقہ کے پاس ہیں، اگر قسمت نے بھی ساتھ دیا تو شاید اس بار 'پروٹیز' تاریخ کا دھارا پلٹنے میں کامیاب ہوجائیں۔

عمران طاہر اس مرتبہ جنوبی افریقہ کے چھپے رستم ثابت ہو سکتے ہیں (تصویر: AFP)
عمران طاہر اس مرتبہ جنوبی افریقہ کے چھپے رستم ثابت ہو سکتے ہیں (تصویر: AFP)

طاقت:

جنوبی افریقہ کھیل کے تمام ہی شعبوں میں ایک مکمل دستہ رکھتا ہے لیکن بالخصوص اُن کی بلے بازی اُنہیں دوسری ٹیموں سے ممتاز کررہی ہے۔ ابراہم ڈی ولیئرز، ہاشم آملہ، ژاں-پال دومنی، فف دوپلیسی اور ڈیوڈ ملر کی موجودگی کے سبب ان کے پاس ایسی بیٹنگ لائن ہے جس پر دیگر تمام بیٹنگ لائنیں قربان کی جا سکتی ہیں۔ ڈی ولیئرز اور آملہ کی ایک روزہ اوسط 50 سے اوپر ہے۔ ہاشم آملہ نے حال ہی میں سب سے کم اننگز میں 5 ہزار ون ڈے رنز مکمل کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے جبکہ ڈی ولیئرز نے صرف 31 گیندوں پر سنچری مکمل کرکے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ باقی تینوں کی کارکردگی کا موازنہ بھی دنیا کے بہترین بلے بازوں کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔

گیندبازی کے شعبے میں ڈیل اسٹین، مورنے مورکل اور عمران طاہر نے جنوبی افریقہ کا نام بلند رکھا ہوا ہے۔ اسٹین اور طاہر میچ کی کشیدہ صورتِ حال میں وکٹیں حاصل کرنے والے گیندباز ہیں جب کہ باؤنس والی پچوں پر مورکل بہت کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔اگر اس پورے منظرنامے میں ویرنن فلینڈر کی سیم باؤلنگ اور کائل ایبٹ کی آخری اوورز میں گیندبازی کی خصوصیت کو بھی شامل کر لیا جائے تو جنوبی افریقہ کی گیندبازی میں بہت وزن نظر آتا ہے۔

کمزوری:

جنوبی افریقہ کی سب سے بڑی کمزوری تو یہ ہے کہ وہ اعصاب شکن مقابلوں کو بخوبی اختتام تک نہیں پہنچا پاتے اور ایسے مواقع پر عموماً انہیں شکست ہی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ عالمی کپ 1996ء میں تمام گروپ مقابلے جیتنے کے بعد کوارٹر فائنل جیسے اہم مقابلے میں وہ ویسٹ انڈیز سے شکست کھا گئے، جو چند مقابلے پہلے ہی کینیا سے ہارا تھا۔ 1999ء میں سیمی فائنل میں اسکور برابر کرنے کے باوجود ان سے آخری رن نہ بن سکا اور مقابلہ ٹائی ہوگیا اور جنوبی افریقہ فائنل کھیلنے سے محروم رہ گیا۔ 2007ء میں آسٹریلیا کے ہاتھوں سیمی فائنل اور 2011ء میں نیوزی لینڈ جیسے کمزور حریف کے ہاتھوں کوارٹر فائنل ہارے۔ عالمی کپ کے علاوہ دیگر بڑے ٹورنامنٹس میں بھی تقریباً یہی داستان دہرائی جاتی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ جنوبی افریقہ میں دباؤ جھیلنے کی صلاحیت کی کمی ہے۔ اس خرابی کے علاوہ ٹیم بے عیب ہے، اس میں اوپر سے لے کر نیچے تک ہر کڑی باہم پیوست دکھائی دیتی ہے اور کہیں سے کوئی کمزور کڑی دکھائی نہیں دیتی۔

خاص کھلاڑی:

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں ہیں کہ کپتان ڈی ولیئرز ٹیم کے سب سے خاص کھلاڑی ہیں۔ اگر محدود اوورز کی کرکٹ کی بات کی جائے تو بے شک وہ اس وقت دنیا کے بہترین بلے باز ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف حال ہی میں 31 گیندوں پر پر تیز ترین سنچری ان کی قہر انگیز بلےبازی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپنے پورے کیریئر میں صرف عالمی کپ ہی ایسی چیز ہے جس سے ڈی ولیئرز تاحال محروم ہیں، اور اس کے بغیر ان کا کیریئر ادھورا بھی معلوم ہوتا ہے۔ اس بار ڈی ولیئرز کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ عالمی کپ جیت کر اس ادھورے پن کو دور کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے خود ان کی کارکردگی بھی بہت اہم ہوگی۔

چھپا رستم:

عالمی کپ 2011ء سے اپنے ایک روزہ کیریئر کا آغاز کرنے والے عمران طاہر نے پہلے ہی مقابلے میں 41 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ پاکستانی نژاد عمران طاہر ایک جارحانہ گیندباز ہیں، اور ان جیسے لیگ اسپنر کی موجودگی کسی بھی کپتان کا خواب ہوتی ہے۔وہ ایک روزہ کرکٹ میں اب تک صرف 20 کے اوسط کے ساتھ 55 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں اور عالمی کپ میں وہ کوئی ایسی کارکردگی دکھا سکتے ہیں جو جنوبی افریقہ کے لیے بہت اہم ہو۔

گزشتہ عالمی کپ میں جنوبی افریقہ کی کارکردگی:

بھارت، ویسٹ انڈیز، بنگلادیش، آئرلینڈ اور نیدرلینڈز کو ہرا کر جنوبی افریقہ گروپ 'ب' میں سرِ فہرست تھا۔ ان کی واحد ناکامی انگلستان کے خلاف تھی جہاں وہ 172 رنز کا ہدف حاصل کرنے میں بھی ناکام ہوئے۔ بہرحال، کوارٹر فائنل میں ان کا مقابلہ نیوزی لینڈ جیسے کمزور حریف سے تھا لیکن وہاں انہوں نے "چوکر" کے تاثر کو برقرار رکھا اور 222 رنو کے تعاقب میں 172 رنزپر ہی ڈھیر ہوکر عالمی کپ سے باہر ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ 108 رنز پر جنوبی افریقہ کے صرف دو ہی کھلاڑی آؤٹ ہوئے تھے۔

دستہ:

ابراہم ڈی ولیئرز (کپتان)، ہاشم آملہ، کائل ایبٹ، فرحان بہاردین، کوئنٹن ڈی کوک (وکٹ کیپر)، ژاں-پال دومنی، فف دو پلیسی، عمران طاہر، ڈیوڈ ملر، مورنے مورکل، وین پارنیل، آرون فانگیسو، ویرنن فلینڈر، ریلی روسو اور ڈیل اسٹین

عالمی کپ میں جنوبی افریقہ کے گروپ مقابلے

بتاریخ بمقام
15 فروری جنوبی افریقہ بمقابلہ زمبابوے ہملٹن
22 فروری جنوبی افریقہ بمقابلہ بھارت ملبورن
27 فروری جنوبی افریقہ بمقابلہ ویسٹ انڈیز سڈنی
3 مارچ جنوبی افریقہ بمقابلہ آئرلینڈ کینبرا
7 مارچ جنوبی افریقہ بمقابلہ پاکستان آکلینڈ
12 مارچ جنوبی افریقہ بمقابلہ متحدہ عرب امارات ویلنگٹن