عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: تاریخ کی تیز ترین گیند

0 1,044

بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کے محض 12 سال بعد جنوبی افریقہ نے یہ مقام حاصل کرلیا تھا کہ اسے 2003ء میں عالمی کپ جیسے اہم ٹورنامنٹ کی میزبانی سونپی گئی۔ کیپ ٹاؤن، جوہانسبرگ، ڈربن، پورٹ ایلزبتھ اور دیگر کئی میدانوں کو عالمی کپ کے مقابلے منعقد کروانے کا شرف حاصل ہوا لیکن کیپ ٹاؤن کو یہ منفرد اعزاز ملا کہ اس میدان پر 22 فروری 2003ء کو تاریخ کی تیز ترین گیند پھینکی گئی، پاکستان کے برق رفتار گیندباز شعیب اختر کی جانب سے۔

شعیب اختر نے دوسری بار، اور باضابطہ طور پر پہلی بار، 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کی، اب کسی کے پاس اس ریکارڈ کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا (تصویر: Getty Images)
شعیب اختر نے دوسری بار، اور باضابطہ طور پر پہلی بار، 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کی، اب کسی کے پاس اس ریکارڈ کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا (تصویر: Getty Images)

پاکستان عالمی کپ 2003ء میں اپنے پہلے مقابلے میں آسٹریلیا سے بری طرح شکست سے دوچار ہوا اور نمیبیا جیسے کمزور حریف کو ہرانے کے بعد اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ کیپ ٹاؤن میں ہونے والے مقابلے میں انگلستان کو چت کرے، جس نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی سنبھالی تھی۔ پاکستان کی جانب سے پہلا اوور وسیم اکرم نے پھینکا جس کےبعد دوسرے اینڈ سے شعیب اختر کو حملے کا حکم دیا گیا۔ یہ ان معدودے چند دنوں میں سے ایک تھا جب شعیب اختر مکمل طور پر فٹ اور اپنی پوری رفتار کے ساتھ گیند کررہے تھے۔ اپنے دوسرے اوور میں انہوں نے انگلش بلے باز نک نائٹ پر تابڑ توڑ گیندیں پھینکیں۔ یہاں تک کہ آخری گیند پر انہوں نے نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔اس گیند کی رفتار 161.3 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی یعنی 100 میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ۔

شعیب نے اپریل 2002ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف ایک میچ کے دوران 161 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند پھینکی تھی لیکن اس مقابلے میں استعمال ہونے والی 'اسپیڈ گن' کو عالمی معیار کا نہیں سمجھا گیا، یوں شعیب اختر کے عالمی ریکارڈ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا لیکن صرف 10 ماہ بعد شعیب نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے ہی ٹورنامنٹ میں، ان کے منظور شدہ آلات پر ہی، تاریخ کی تیز ترین گیند پھینک کر اس دوڑ کا خاتمہ کردیا جو سالوں سے ان کے اور آسٹریلیا کے بریٹ لی کے درمیان جاری تھی۔

شعیب اختر کا یہ اوور ہی کچھ خاص تھا۔ انہوں نے اس رفتار سے گیندیں پھینکیں کہ یہ کرکٹ کی تاریخ کا تیزترین اوور کہلایا۔ شعیب نے پہلی گیند پر 153.3 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار حاصل کی جس کےبعد 158.4، 158.5، 157.4 اور 159.5 کی رفتار سے گیندیں پھینکنے کے بعد آخری گیند پر عالمی ریکارڈ قائم کر ڈالا۔ اس گیند کے چند ثانیوں بعد جب اسٹیڈیم کے برقی اسکور بورڈ پر گیند کی رفتار دکھائی گئی تو میدان میں موجود تماشائیوں نے شعیب اخترکو کھل کر داد دی۔

لیکن شعیب کی یہ برق رفتاری پاکستان کو ایک مایوس کن شکست سے نہ بچا سکی۔ 247 رنز کے تعاقب میں صرف 90 رنز پر پاکستان کے 9 کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔ شعیب نے 16 گیندوں پر 43 رنز بنا کر شکست کے مارجن کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن پھر بھی پاکستان یہ مقابلہ 112 رنز سے ہارا۔ یہ 2003ء کےعالمی کپ میں پاکستان کی مایوس کن کارکردگی کی صرف ایک جھلک ہے۔

بہرحال، اس یادگار لمحے کے بارے میں شعیب اختر اپنی آپ بیتی "Controversially Yours" میں کچھ ان الفاظ میں رقم طراز ہوئے:

"وہ عالمی کپ 2003ء میں 22 فروری کا دن تھا جب وہ لمحہ آن پہنچا جس کا مجھے مدتوں سے انتظار تھا۔ پاکستان نیولینڈز، کیپ ٹاؤن میں انگلستان کے مدمقابل ہوا تھا اور میچ کی ابتدائی لمحات ہی میں مجھے اندازہ ہوا کہ میں نے بیٹنگ کریز پر موجود بلے باز نک نائٹ کو غیر معمولی طور پر تیز گیند پھینکی ہے۔ تو میں نے اپنی رفتار کا مشاہدہ کرنا شروع کر دیا – وہ 90 کے وسط میں تھی۔ میں نے مزید محنت کی، اور اسپیڈ گن – جی ہاں باضابطہ یعنی آفیشل والی – نے 94 سے 97 میل فی گھنٹہ کی رفتار دینا شروع کر دی۔ پھر میں نے 99 میل فی گھنٹہ کو جا لیا، اب میں خود سے گویا ہوا، یہی موقع ہے، تم کر سکتے ہو، اپنی تمام تر قوت کے ساتھ دوڑو—اور ریکارڈ بنا ڈالو۔ وہ لمحہ، جس کا میں منتظر تھا، میرے دماغ میں جھماکےکے ساتھ آیا، میں کچھ دھیما ہوا۔ پہلے تومیں نے سوچا کہ کہیں میں کچھ غلط تو نہیں کر رہا اور میں نے اپنے رن اپ پر توجہ مرکوز کی –قدم کہاں رکھا، زقند کس طرح بھری۔ میں نے اندازہ لگایا کہ مسئلہ آخری چند گزوں میں ہے۔ میں نے مکمل توجہ کے ساتھ آخر تک اپنی رفتار برقرار رکھنے کی کوشش کی، چھلانگ ماری اور ہاتھ گھماتے ہوئے گیند کو چھوڑا اور 161.3 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند پھینک ڈالی؛ میں 100 میل فی گھنٹے کی رکاوٹ عبور کر چکا تھا۔ ایک مرتبہ پھر! میں نے پویلین کی طرف دیکھا اور وہاں بیٹھے لوگوں کی طرف اشارہ کیا، دیکھو، میں نے یہ دوبارہ کر ڈالا۔ اللہ کا واسطہ ہے اب اسے تسلیم کرو۔ اور انہوں نے ایسا کیا۔"