پاکستان زمبابوے سے ہی کچھ سیکھ لے

3 1,093

خدشات اور توقعات کے عین مطابق عالمی کپ کے "سب سے بڑے مقابلے" میں پاکستان کو روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی یعنی انگریزی محاورے کے مصداق "یہ بندر شانوں سے نہیں اترے گا"۔ 1996ء اور 2011ء کے مقابلے میں اس ہار کی شدت ضرور کم ہے کیونکہ یہ ناک-آؤٹ مقابلہ نہیں تھا لیکن بھارت کے ہاتھوں عالمی کپ میں مسلسل چھٹی شکست نے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کے کھلاڑیوں کا اصل مسئلہ نفسیاتی دباؤ ہے۔

زمبابوے کے بلے بازوں نے جس بے جگری سے دنیا کےبہترین باؤلنگ اٹیک کا مقابلہ کیا، اس میں پاکستان کے لیے سبق پوشیدہ ہے (تصویر: Getty Images)
زمبابوے کے بلے بازوں نے جس بے جگری سے دنیا کےبہترین باؤلنگ اٹیک کا مقابلہ کیا، اس میں پاکستان کے لیے سبق پوشیدہ ہے (تصویر: Getty Images)

ابھی چند روز قبل انہی بلے بازوں نے بھارت سے بدرجہا بہتر انگلستان کے باؤلنگ اٹیک کے خلاف 251 رنز کا ہدف باآسانی حاصل کرنے والے پاکستانی بلے باز آج بجھے بجھے دکھائی دیے۔ بھارت کی "المشہور" باؤلنگ کا سوائے مصباح الحق کے کسی نے ڈٹ کر مقابلہ نہیں کیا اور یوں صرف 224 رنز پر اننگز تمام ہوئی اور تاریخ کے صفحات میں ایک اور ناکامی کا اضافہ ہوگیا۔

جب ایڈیلیڈ میں 45 ہزار سے زیادہ تماشائی ان ایشیائی پڑوسیوں کو دیکھ رہے تھے تو 3 ہزار کلومیٹر دور ہملٹن میں افریقی ہمسائے زمبابوے اور جنوبی افریقہ کا بے جوڑ سا مقابلہ بھی جاری تھا۔ لیکن دنیا کی نمبر ایک باؤلنگ لائن کے خلاف زمبابوے جیسا کمزور حریف اتنا نہیں گھبرایا ہوگا جتنا کہ پاکستان کے کھلاڑیوں کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے۔ زمبابوے پہلے صرف 84 رنز پر کوئنٹن ڈی کوک، ہاشم آملہ، فف دو پلیسی اور ابراہم ڈی ولیئرز جیسے شہرۂ آفاق بلے بازوں کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہوئے جس میں اہم کردار شاندار فیلڈنگ کا بھی رہا۔ لانگ آف پر کریگ اروین نے اچھل کر ایک یقینی چھکے کو کیچ میں بدلا اور ڈی ولیئرز کو راہ دکھائی۔ گو کہ ڈیوڈ ملر اور ژاں-پال دومنی کی ریکارڈ شراکت داری نے زمبابوے کا مزا کرکرا کردیا اور جنوبی افریقہ کو 339 رنز کے بڑے مجموعے تک پہنچا دیا لیکن اس حالت تک پہنچنے کے بعد بھی زمبابوے نے ہمت نہیں ہاری۔

زمبابوے کے بلے باز خاص طور پر ہملٹن ماساکازا ، چامو چی بھابھا اور برینڈن ٹیلر، ڈیل اسٹین، مورنے مورکل، ویرنن فلینڈر اور عمران طاہر پر مشتمل دنیا کے بہترین باؤلنگ اٹیک کے خلاف ڈٹ گئے اور ایک مرحلے پر اس مقام پر پہنچ گئے کہ لگ رہا تھا کہ شاید زمبابوے میچ بھی جیت جائے۔ 33 اوورز میں صرف دو وکٹوں کے نقصان پر 191 رنز بنانے کے بعد زمبابوے کو آخری 17 اوورز میں 149 رنز کی ضرورت تھی جو مشکل ضرور تھے لیکن ناممکن نہیں۔ جنوبی افریقہ کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا تھا کہ کہیں بلے بازی کے بعد گیندبازی میں بھی معاملہ خراب تو نہیں ہوجائے گا۔ لیکن ان کی خوش قسمتی کہ ایک مرتبہ سیٹ بلے بازوں کے آؤٹ ہونے کے بعد آنے والے کھلاڑی بڑھتے ہوئے درکار رن اوسط کا دباؤ نہ جھیل سکے۔ یہاں تک کہ پوری ٹیم 49 ویں اوور میں 277 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ یوں زمبابوے 340 رنز کے بڑے ہدف کے تعاقب میں 62 رنز سے شکست ہوئی۔

ہملٹن ماساکازا کی 74 گیندوں پر 80، چی بھابھا کی 64 اور ٹیلر کی 40 رنز کی اننگز پاکستانی بلے بازوں کو شرمانے کے لیے کافی ہیں۔ انہوں نے یہ اننگز دنیا کے بہترین باؤلنگ اٹیک کے خلاف کھیلی تھیں، بغیر کسی خوف کے اور خم ٹھونک کے جبکہ پاکستان کے بلے باز ایک معمولی باؤلنگ اٹیک کے خلاف بھیگی بلی بنے دکھائی دیے۔

زمبابوے میں ہرگز جنوبی افریقہ کو زیر کرنے کا دم نہیں تھا، نہ ہی کسی نے ان سے یہ توقع رکھی بھی تھی کہ وہ 1999ء کی تاریخ دہرائیں۔ لیکن انہوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی ہے۔

اگر پاکستان آئندہ مقابلوں میں ویسٹ انڈیز، آئرلینڈ اور زمبابوے جیسے بظاہر کمزور لیکن درحقیقت لوہے کے چنے ثابت ہونے والے حریفوں کو زیر کرنا چاہتا ہے تو اسے ضرورت ہوگی دماغ کو استعمال کرنے، خوف کو دل سے نکالنے اور متحد ہو کر کھیلنے کی ورنہ پاکستان کی عالمی کپ داستان کا پہلے ہی مرحلے میں خاتمہ ہوسکتا ہے۔