بھارت سے شکست، میانداد کی پاکستانی منصوبہ بندی پر کڑی تنقید

2 1,021

روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست پر سابق کپتان اور عظیم بلے باز جاوید میانداد نے پاکستان کی منصوبہ بندی پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ بڑے مقابلوں میں تجربات نہیں کیے جاتے اور بدقسمتی سے پاکستان کو یہ سادہ سا اصول کبھی یاد نہیں رہتا۔

آؤٹ  آف فارم بلے باز کو اوپنر بھیجنا اور بھارت کے خلاف تین اسپنرز کھلانا پاکستان کی بڑی غلطی تھی، جاوید میانداد (تصویر: Getty Images)
آؤٹ آف فارم بلے باز کو اوپنر بھیجنا اور بھارت کے خلاف تین اسپنرز کھلانا پاکستان کی بڑی غلطی تھی، جاوید میانداد (تصویر: Getty Images)

کئی دنوں سے خبروں اور روزمرہ گفتگو کا موضوع بننے والا پاک-بھارت مقابلہ ایڈیلیڈ کی بلے بازی کے زیادہ موافق پچ پر بھارت کی آسان جیت پر مکمل ہوا۔ 76 رنز کی اس جامع فتح نے عالمی کپ میں بھارت کے پاکستان کے خلاف ریکارڈ کو چھ-صفر کردیا ہے اور اب پاکستان کو اپنی شکستوں کا سلسلہ توڑنے کے لیے کم از کم مزید چار سال کا انتظار کرنا پڑسکتا ہے الّا یہ کہ اسی عالمی کپ کے ناک آؤٹ مرحلے میں کہیں دونوں ٹیمیں ٹکراجائیں۔

جاوید میانداد نے بین الاقوامی کرکٹ کی ویب سائٹ کے لیے لکھی گئی اپنی خصوصی تحریر میں جاوید میانداد نے سب سے زیادہ حیرت منتخب ہونے والی ٹیم پر کی۔ "آخر یونس خان کو اوپنر کھلانے کے پیچھے کون سی سائنس تھی؟ یا پھر وکٹ کیپر سرفراز احمد کو میچ میں نہ کھلانے کی کیا منطق تھی، جبکہ وہ جارحانہ بلے بازی بھی کر سکتے تھے؟ یہ سب تو ایسا ہی تھا کہ جیسے اہم ترین ٹورنامنٹ عالمی کپ 2015ء کے آغاز سے پہلے کسی نے خطرے کا بٹن دبا دیا ہو۔" انہوں نے مزید کہا کہ "ناصر جمشید محمد حفیظ کی جگہ لینے آسٹریلیا پہنچے ہیں، صرف انگلینڈ کے خلاف وارم-اپ کھیلنے نہیں۔"

سرفراز احمد کی عدم شمولیت پر تنقید کرتے ہوئے جاوید میانداد کا کہنا تھا کہ "کرکٹ میں وکٹ کیپنگ ایک خاص کام ہے اور ہم نے کئی فیصلہ کن مقابلوں میں اہم مواقع پر عمر اکمل کو کیچ چھوڑتے دیکھا ہے، اس لیے جب عمر نے وکٹوں کے پیچھے ویراٹ کوہلی کا کیچ چھوڑا تو مجھے حیرانی نہیں ہوئی۔"

منتخب کردہ ٹیم کے بارے میں پاکستان کی تاریخ کے عظیم ترین بلے باز کا کہنا تھا کہ "ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹیم انتظامیہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائی کہ ٹیم کس شعبے میں مضبوط ہے۔ انتظامیہ آٹھویں نمبر تک بلے باز بھی کھلانا چاہتی ہے اور چھٹے باؤلر کی شمولیت کا موقع بھی گنوانا نہیں چاہتی لیکن معذرت کے ساتھ بڑے ٹورنامنٹس میں یہ طرزِ عمل درست نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ پاکستان ایک بہت اہم ٹاس ہار گیا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ابتداء ہی سے ہار مان لی جائے۔"

جاوید میانداد نے بھارت کے کھیل کی بھرپور تعریف کی اور کہا کہ "بھارت نے میچ کی بھرپور تیاری کر رکھی تھی اور جس انداز میں شیکھر دھاون اور ویراٹ کوہلی نے اننگز کی بنیاد رکھی، اُسے روکنے کے لیے مصباح الحق کے پاس عملی طور پر کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ دونوں بلے باز خراب گیندوں پر رنز بناتے رہے اور انہوں نے محمد عرفان کی اونچائی اور تیز رفتاری کو بھی بے اثر کر دیا۔ عرفان کو گیندبازی کے دوران امپائر کے سامنے آتے رہنے کی وجہ سے دو بار خبردار کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کے پاس امپائر کے بائیں جانب سے گیند کرانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا تھا، جس سے اُن کی بولنگ کی کاٹ ختم ہو گئی۔"

یاسر شاہ کی شمولیت پر ان کا کہنا تھا کہ "ٹیم انتظامیہ یہ بھول گئی تھی کہ بھارتی بلے باز اسپنرز کے خلاف بہترین کھیل پیش کرتے ہیں اور پاکستان نے ایک یا دو نہیں بلکہ تین اسپنرز کھلائے۔ لیگ اسپنرز یاسر شاہ کا یہ صرف دوسرا ایک روزہ تھا جس میں ان سے بہترین کارکردگی کی توقع رکھنا شاید حد سے زیادہ طلب کرنا تھا۔ بھارتی بلے بازوں کو اُن کا سامنا کرنے میں چنداں پریشانی محسوس نہیں ہوئی اور انہیں اپنے 8 اووروں میں 60 سے زیادہ رنز کی خفت اٹھانی پڑی۔ پھر حارث سہیل کی اسپن پر بھروسا کرنا بھی حد سے زیادہ تھا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پچوں پر وہ مضبوط بلے باز حریفوں کے خلاف بالکل بھی کارآمد ثابت نہیں ہوں گے۔ پاکستانی گیندبازی میں واحد مثبت چیز سہیل خان کی پانچ وکٹیں تھیں، لیکن وہ ایک ایسے وقت میں لی گئیں جب بھارت 300 کے قریب پہنچ چکا تھا۔

"اتنے بڑے ہدف کے تعاقب کو دیکھتے ہوئے مجھے امید تھی کہ پاکستان یونس خان کو اوپنر بھیجنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرے گا اور ساتھ ہی یہ توقع بھی تھی کہ احمد شہزاد کے ہمراہ شاہد آفریدی اننگز کا آغاز کریں گے۔ لیکن افسوس کہ ٹیم انتظامیہ نے صورتِ حال کا درست اندازہ نہیں لگایا۔" جاوید میانداد نے کہا۔ "یونس خان فارم سے باہر ہیں، اور یہ تلخ سچائی جتنی جلدی قبول کریں گے، پاکستان کو عالمی کپ میں اُتنا ہی فائدہ ہو گا۔ اوپننگ نہ کرنے والے بلے باز عموماً نئی گیند کو اچھی طرح نہیں کھیل پاتے اور اگر آپ فارم میں بھی نہ ہوں، تو اس سے مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔"

ماضی میں پاکستان کی کوچنگ بھی کرنے والے جاوید میانداد نے کہا کہ "وکٹ میں کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا، بلکہ صرف غیر ذمہ دارانہ شاٹس اور یونس کی جگہ بنانے کے لیے بیٹنگ آرڈر میں چھیڑ چھاڑ نے پاکستان کو میچ ہرایا۔"

البتہ جاوید میانداد نے اس شکست کا روشن پہلو ڈھونڈتے ہوئے کہا کہ 1992ء میں بھی پاکستان اپنے تینوں ابتدائی مقابلے ہار گیا تھا جس میں بھارت کے خلاف میچ بھی شامل تھا، جس کے بعد اُس نے ٹورنامنٹ میں بہترین انداز سے واپسی کی تھی اور فائنل جیت کر عالمی چیمپئن بنا۔ اس لیے بھارت کے خلاف اہم مقابلے کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں پر سے دباؤ ختم ہوجانا چاہیے اور اُنہیں اپنی پوری توجہ بقیہ پانچ گروپ میچوں پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ "پاکستان کو فقط ایک صحیح کمبی نیشن کی اور فارم میں نہ ہونے والے کھلاڑیوں کے لیے زبردستی جگہ بنانے کے بجائے اسپیشلسٹ کھلاڑیوں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیے کہ سب سے پہلے پاکستان ہونا چاہیے نہ کہ انفرادی کھلاڑی۔"

پاکستان اپنا اگلا مقابلہ 21 فروری کو ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے گا اور اس مقابلے میں پاکستان کے پاس جیتنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بھی شکست کے بعد اس کے لیے بہت مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں کیونکہ اسے گروپ میں جنوبی افریقہ کا مقابلہ بھی کرنا ہے اور عالمی کپ میں پہلا اپ سیٹ کرنے والے آئرلینڈ کا بھی۔