یونس– بونس یا بوجھ؟

2 1,012

صفر، چھ، گیارہ، نو۔۔۔ یہ اس بلے باز کی حالیہ کارکردگی ہے، جسے پاکستان کی کمزور بیٹنگ لائن کو سہارا دینے کے لیے ٹیم میں شامل کیا گیا تھا لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ بوجھ بن گیا ہے۔ جی ہاں! میں بات کر رہا ہوں یونس خان کی کہ جنہیں گزشتہ سال غیر تسلی بخش کارکردگی پر جب ایک روزہ ٹیم سے الگ کیا گیا تھا تو نہ صرف سخت برہمی کا اظہار کیا تھا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا بلکہ ایک مقابلے کے بعد پریزنٹیشن کے دوران بورڈ کا شکریہ تک ادا کرنے سے انکار کردیا تھا۔

اگر نیوزی لینڈ کے خلاف سنچری کو نکال دیں تو دو سالوں میں یونس کی بہترین اننگز 35 رنز کی ہے (تصویر: AFP)
اگر نیوزی لینڈ کے خلاف سنچری کو نکال دیں تو دو سالوں میں یونس کی بہترین اننگز 35 رنز کی ہے (تصویر: AFP)

اسے پاکستان کے ساتھ ساتھ یونس خان کی بھی بدقسمتی کہیے کہ آسٹریلیا کے ہاتھوں کلین سویپ شکست کے بعد خان صاحب کی قومی ٹیم میں واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔ ان کے دھواں دار بیانات نے سال 2014ء میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے فواد عالم کو باہر کا دروازہ دکھایا۔ بہرحال، نیوزی لینڈ کے خلاف ایک سنچری کے علاوہ کسی اور مقابلے میں یوس قابل ذکر اسکور نہ کرپائے، جس کی چند تازہ مثالیں اوپر موجود ہیں۔ اس سنچری کو الگ کردیں تو سال 2013ء اور 2014ء میں یونس کی ایک روزہ کرکٹ میں سب سے "طویل" اننگز 35 رنز کی ہے۔

یونس خان کی کارکردگی کا جائزہ بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ طویل طرز کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے اور کئی قومی و عالمی ریکارڈز اپنے نام کرنے کے باوجود مختصر طرز میں ان کی کارکردگی اس قابل نہیں کہ وہ عالمی کپ جیسے بڑے اور اہم ٹورنامنٹ کے لیے ٹیم میں جگہ پائیں۔ خاص کر عالمی کپ2015ء کے دونوں میزبان ممالک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی سرزمین پر تو یونس کی کارکردگی اور بھی مایوس کن رہی ہے۔

کینگروز کے دیس میں یونس خان نے کل 10 ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 17.00 کی اوسط سے 153 رنز بنائے ہیں جبکہ نیوزی لینڈ میں انہوں نے 9 میچز میں 16.87 کی اوسط سے 135 رنز بنائے ہیں۔ یوں اس خطے میں مجموعی طور پر یونس نے 19 مقابلوں میں 288 رنز بنائے جس میں سب سے زیادہ اسکور 56 رنز رہا اور یہ کارنامہ بھی جون 2002ء کا ہے کہ جب آتش جوان تھا۔

دور حاضر کی کرکٹ ماضی سے کہیں زیادہ تیز اور مختلف ہوچکی ہے لہٰذا جہاں کھلاڑیوں کو کارکردگی میں تسلسل دکھانا ضروری ہوگیا ہے، وہیں بورڈ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر فارمیٹ کی کارکردگی کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لے اور اسی کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ دے۔ بڑے نام یا دوسرے فارمیٹ مثلاً ٹیسٹ میں زبردست کارکردگی کو جواز بنا کر کسی کھلاڑی کو ایک روزہ یا ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا حصہ بنا دینا ان باصلاحیت کھلاڑیوں سے ناانصافی ہے، جن کا کھیلنے کا انداز موجودہ کرکٹ کے تقاضوں سے میل کھاتا ہے۔

اسی بات کو سابق کھلاڑی مشتاق محمد نے بھی محسوس کیا اور 37 سالہ یونس خان کی ایک روزہ ٹیم میں شمولیت کی ضد پر افسوس کا اظہار کرتے کہا کہ انہیں ایک روزہ کیریئر کو مزید طویل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں یونس خان کی حالیہ کارکردگی پر شعیب اختر اپنے روایتی "جارحانہ" انداز میں یہ تک کہہ گئے کہ بہتر ہوگا وہ خود ہی جا کر انتظامیہ کو کہہ دیں کہ میں وطن واپس جانا چاہتا ہوں۔ سابق کپتان راشد لطیف بھی خان صاحب سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نچلے نمبر پر بلے بازی کرنے کے مشورے کو قابل عمل نہیں سمجھا۔

اب یونس خان کے لیے ایک ہی راستہ ہےکہ پاکستان کے آئندہ چار مقابلوں میں کچھ کر دکھائیں اور پاکستان کو اس دلدل سے نکالیں، ورنہ کئی کھلاڑیوں کے ساتھ ان کے ایک روزہ کیریئر کا بھی عالمی کپ کے ساتھ خاتمہ ہوجائے گا۔