پاکستان نے "یکم مارچ" کے جن کو بوتل میں بند کردیا

6 1,040

اگر یہ کہا جائے تو بالکل غلط نہ ہوگا کہ یکم مارچ پاکستان کرکٹ کے ان دنوں میں سے ایک ہے، جو ہمیشہ اس کے لیے مایوسی کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ یہ ایسی تاریخ ہے جس میں پاکستان کو شاید ہی کبھی کوئی اچھی خبر ملی ہو۔ یکم مارچ 1958ء سے لے کر یکم مارچ 2014ء تک کئی مواقع پر پاکستان کو کرکٹ کے میدانوں میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن 2015ء میں پاکستان نے تاریخ کا دھارا پلٹ دیا ہے، اور اس "جن" کو بوتل میں بند کردیا ہے۔

یکم مارچ سے وابستہ پاکستان کی پہلی بھیانک یاد 57 سال پرانی ہے۔ جب پاکستان 1958ء میں پہلی بار ویسٹ انڈیز کے دورے پر گیا تھا۔ پہلے ٹیسٹ میں تو حنیف محمد نے ایک دلیرانہ ٹرپل سنچری اننگز کھیل کر پاکستان کو یقینی شکست سے بچا لیا تھا لیکن دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان کو 120 رنز کی مایوس کن شکست ہوئی۔ سیریز میں خسارے میں جانے کے بعد تیسرا مقابلہ کنگسٹن، جمیکا میں کھیلا گیا جہاں پاکستان نے پہلی اننگز میں امتیاز احمد کی سنچری کی مدد سے 328 رنز بنا دیے لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایسا پاکستان بھلا دینا چاہے گا۔ ویسٹ انڈیز نے دوسری اننگز میں کونراڈ ہنٹے اور گیری سوبرز کی 446 رنز کی شراکت داری کے ذریعے 790 رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا، جس کے بوجھ تلے دب کر پاکستان ایک اننگز اور 174 رنز سے ہار گیا۔ اس مقابلے میں گیری سوبرز نے اپنے وقت کی طویل ترین اننگز کھیلی جس میں انہوں نے 614 منٹوں تک کریز پر قیام کے دوران 365 رنز بنائے جو کئی دہائیوں تک عالمی ریکارڈ تھا۔ پاکستان کی باؤلنگ کا اس طرح جنازہ نہ کبھی کوئی نکال سکا، اور نہ ہی اس کے بعد کبھی ایسا ہوا اور جس روز سوبرز نے یہ کارنامہ انجام دیا، اس دن تاریخ یکم مارچ ہی تھی۔

پاکستان کرکٹ کا یادگار ترین لمحہ 1992ء میں عالمی کپ جیتنا ہے۔ تاریخی جیت کے اس سفر کے دوران بھی جب یکم مارچ آیا تھا تو پاکستان کی کارکردگی بدترین تھی۔ انگلستان کے خلاف مقابلے میں پاکستان کے تمام کھلاڑی صرف 74 رنز پر ڈھیر ہوگئے تھے جو اس وقت ایک روزہ کرکٹ میں پاکستان کا کم ترین مجموعہ تھا۔ آج ایسا لگتا ہے کہ یہ یادگار سفر میں یکم مارچ 1992ء ایک بھیانک موڑ تھا جہاں گاڑی کھائی میں گرتے گرتے بچی۔ ڈیرک پرنگل اور دیگر انگلش باؤلرز کے مقابلے میں اس ہزیمت سے دوچار ہونے کے بعد صرف پاکستان کے لیے خدائی مدد بارش کی صورت میں نازل ہوئی۔ ہدف کے تعاقب میں انگلستان کی اننگز کے صرف 8 اوورز ہی ممکن ہو سکے اور یوں پاکستان کو اس مایوس کن کارکردگی کے باوجود ایک پوائنٹ مل گیا، جو سیمی فائنل تک پیشرفت کے لیے اہم ثابت ہوا۔

پاکستان اور یکم مارچ، اگلا ٹکراؤ 2003ء کے عالمی کپ میں ہوا وہ بھی روایتی حریف بھارت کے خلاف۔ پاکستان نے سعید انور کی سنچری کی بدولت 273 رنز تک بنا ڈالے لیکن سچن تنڈولکر کی 98 رنز کی یادگار باری اور پھر راہول ڈریوڈ اور یووراج سنگھ کی 99 رنز کی ناقابل شکست ساجھے داری نے پاکستان کو عالمی کپ کی دوڑ سے تقریباً باہر ہی کردیا۔ یہ عالمی کپ تاریخ میں بھارت کے ہاتھوں مسلسل چوتھی شکست تھی، اور یہ سلسلہ اب تک رکنے میں نہیں آیا۔

بہرحال، یکم مارچ کی 'نحوست' نے پچھلے سال تک تو پاکستان کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں کھیلے گئے انڈر-19 عالمی کپ میں پاکستانی نوجوان شاندار کارکردگی دکھا کر فائنل تک پہنچے۔ سیمی فائنل میں ان کھلاڑیوں نے انگلستان کو جس طرح شکست دی اس کے بعد جنوبی افریقہ کے خلاف فائنل میں جیتنے کے امکانات کافی تھے لیکن پاکستان یکم مارچ 2014ء کے دن جنوبی افریقہ کو شکست نہ دے سکا۔ پوری ٹیم صرف 131 رنز پر ڈھیر ہوئی اور جنوبی افریقہ نے باآسانی 4 وکٹوں پر ہدف حاصل کرلیا۔ دو مرتبہ کا انڈر-19 عالمی چیمپئن پاکستان تیسری بار ٹورنامنٹ کے کسی فائنل میں شکست سے دوچار ہوا تھا۔

اس لیے یکم مارچ کی اس طویل تاریخ کو دیکھتے ہوئے زمبابوے کے خلاف مقابلے سے پاکستان کو بہت خوف آ رہا تھا۔ کیونکہ اس مقابلے میں شکست کا مطلب تھا کہ پاکستان کے عالمی کپ 2015ء میں امکانات تقریباً ختم! لیکن خدا خدا کرکے پاکستان نے تمام خامیوں پر قابو پاتے ہوئے بالآخر مقابلہ 20 رنز سے جیت لیا۔