عالمی کپ میں 10 نہیں 25 ٹیمیں ہونی چاہئیں: سچن تنڈولکر

1 1,014

کرکٹ تاریخ کے عظیم ترین بلے بازوں میں سے ایک بھارت کے سچن تنڈولکر نے بین الاقوامی کرکٹ کے اس فیصلے پر اعتراض کیا ہے جس کے مطابق عالمی کپ 2019ء میں 10 ٹیمیں کھلائی جائیں گی۔ اس وقت آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جاری عالمی کپ میں 14 ٹیمیں شرکت کررہی ہیں لیکن آئی سی سی یہ تعداد گھٹا کر 10 کرنا چاہتا ہے۔ سچن کے مطابق یہ قدم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنے کے مترادف ہوگا اور ایسوسی ایٹ اراکین کے لیے تو یہ فیصلہ قطعاً درست نہیں ہوگا۔

موجودہ عالمی کپ کے برانڈ سفیر سچن تنڈولکرنے کہا کہ ایسوسی ایٹ اراکین کوٹیسٹ درجہ رکھنے والے ممالک کی 'اے' ٹیموں کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ کھلانا چاہیے اور اس کے علاوہ دوسرے طریقےڈھونڈنے چاہئیں، جن سے ان چھوٹی ٹیموں کی حوصلہ افزائی ہو۔ "اگلے عالمی کپ میں 10 ٹیموں کے کھیلنے کا فیصلہ مایوس کن ہے کیونکہ میں اس کھیل کو دنیا بھر میں پھیلتے دیکھنا چاہتا ہوں۔"

بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی دلیل یہ ہے کہ عالمی کپ جیسے اعلیٰ ترین ٹورنامنٹ میں باہمی مسابقت اچھی ہونی چاہیے، اس لیے صرف بہترین ٹیموں ہی کو عالمی کپ میں شامل ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس جاری عالمی کپ کو دیکھا تو اب تک ٹورنامنٹ میں 'چھوٹے ممالک' نے بہت اچھی اور قابل تعریف کارکردگی دکھائی ہے۔ آئرلینڈ نے پہلے ہی مقابلے میں ویسٹ انڈیز کو شکست دی، پھر افغانستان، متحدہ عرب امارات، آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کارکردگی اتنی بری بھی نہیں رہی بلکہ مقابلے جیتے بھی ہیں۔ تنڈولکر کہتے ہیں کہ عالمی کپ میں ہمیشہ چھوٹی ٹیمیں بڑی ٹیموں کو چونکاتی رہتی ہیں، اور اگر انہیں درست پلیٹ فارم ملے تو یہ لگاتار بنیادوں پر ایسے کارنامے انجام دے سکتی ہیں۔

سچن کا خیال ہے کہ چھوٹی ٹیموں کو چار سال کے بعد ہی آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز اور سری لنکا جیسی بہترین ٹیموں سے ٹکرانے کا موقع ملتا ہے، ایسے میں اُن سے یکایک شاندار کارکردگی کی امید رکھنا درست نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "اگر کرکٹ کو پوری دنیا میں پھیلانا ہے تو اسے صرف سات، آٹھ ملکوں تک محدود رکھنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ ملکوں کو شامل کرنا ہو گا۔ اس لیے میں تو اس بات کے حق میں ہوں کہ 14 کے بجائے 25 ٹیموں کو شامل کرنے پر غور کیا جائے۔"

کرکٹ کے کھیل کو بہتر بنانے کے لیے سچن نے آئی سی سی کو کئی تجاویز دیں، جس میں سب سے اہم ایک روزہ کرکٹ کو 25، 25 اوورز کی دو اننگز میں تقسیم کرنے کی ہے۔ سچن کہتے ہیں کہ "پہلے بلے بازی کرنے والے کو 25 اوورز کھیلنا چاہیے اور اس کے بعد دوسرا فریق آئے اور وہ بلے بازی کرے۔ بعد ازاں، پھر پہلی ٹیم کھیلنے آئے اور بقیہ 25 اوورز کھیل کر مقابل کو ہدف دے جو آخری 25 اوورز میں مقابلے کا خاتمہ کرے، لیکن اس دورانیے میں کھیلنے کے لیے وکٹیں 10 ہی ہوں۔" اس تجویز کی وجہ بتاتے ہوئے سب سے زیادہ ٹیسٹ اور ایک روزہ بنانے والے بلے باز نے کہا کہ "میں سمجھتا ہوں کہ کچھ میدانوں میں دوسری اننگز میں بلے بازی کرنے والی ٹیموں کے لیے حالات نامساعد ہوتے ہیں،کیونکہ وہاں شبنم بہت گرتی ہے۔ یوں اسپنر کا کھیل تو تقریباً ختم ہی ہوجاتا ہے اور تیز گیندباز بھی بے دست و پا نظر آتے ہیں۔ بلے باز کے سوچنے کے لیے صرف یہی بات رہ جاتی ہے کہ وہ کس طرف چھکا یا چوکا لگائے۔ کرکٹ ایسی صورتحال میں آگے کی جانب نہیں بڑھ سکتی، ہمیں درست توازن ڈھونڈنا ہوگا۔"

بین الاقوامی کرکٹ کونسل عالمی کپ کے بعد بلّوں کی موٹائی کی ایک حد مقرر کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے جو ان کے خیال میں کھیل کے توازن کو بگاڑ رہے ہیں۔