پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ بمقابلہ بارش

0 1,045

عالمی کپ میں بدترین آغاز کے بعد اپنے اوسان بحال کرنے والے پاکستان اور جنوبی افریقہ اب گروپ مرحلے کے اہم مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ آکلینڈ میں طے شدہ میچ میں جیت پاکستان کے کوارٹر فائنل میں پہنچنے کے امکانات مزید روشن کرسکتی ہے، ساتھ ہی کسی قابل ذکر ٹیم کے خلاف فتح کھویا ہوا اعتماد بھی بحال کرسکتی ہے لیکن شکست اسے سخت مشکل میں ڈال دے گی کیونکہ اسے نہ صرف دیگر مقابلوں کے نتائج پر انحصار کرنا پڑے گا بلکہ آخری گروپ میچ میں آئرلینڈ کو بھی زیر کرنا ہوگا۔

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ان میدانوں پر 1992ء میں ہونے والے آخری عالمی کپ کا فاتح پاکستان جنوبی افریقہ کے خلاف کبھی عالمی کپ میں کوئی مقابلہ نہیں جیتا۔ 1992ء کے بعد اسے 1996ء اور 1999ء میں بھی پروٹیز کے ہاتھوں شکست ہوئی، حالانکہ اول الذکر میں وہ چیمپئن بنا تھا اور باقی دونوں بار فیورٹ کی حیثیت سے کھیل رہا تھا۔

ایک طرف پاکستان کا یہ حال ہے تو دوسری جانب بھارت کے خلاف اہم مقابلہ ہارنے کے بعد دو شاندار فتوحات جنوبی افریقہ ساتویں آسمان پر لے آئی ہیں۔ جنوبی افریقہ نے پہلے ویسٹ انڈیز اور پھر آئرلینڈ کے خلاف 400 سے زیادہ رنز کے مجموعے کھڑے کیے ۔ پاکستان کی حالیہ مقابلوں میں عمدہ گیندبازی کے بعد شاید جنوبی افریقہ کے لیے مسلسل تیسری بار یہ سنگ میل عبور کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو لیکن کسی بھی صورت میں اگر جنوبی افریقہ جیتتا ہے تو کوارٹر فائنل میں اس کی جگہ تقریباً پکی ہو جائے گی۔

اس وقت جنوبی افریقہ کے کپتان ابراہم ڈی ولیئرز بہترین بلے بازی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے 27 فروری کو ویسٹ انڈیز کے خلاف صرف 66 گیندوں پر 162 رنز کی اننگز کھیلی تھی، اور ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں سب سے تیز 150 رنز بنانے کا نیا ریکارڈ بھی بنایا تھا۔ ان کے علاوہ پچھلے دو مقابلوں میں ہاشم آملہ اور فف دو پلیسی نے بھی سنچریاں بنائی ہیں جو جنوبی افریقہ کی بہترین فارم کو ظاہر کررہی ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ کل کے مقابلے کا فیصلہ اس بات پر ہو کہ کون بہتر بلے بازی کرتا ہے، کیونکہ دونوں ٹیمیں روایتی طور پر گیندبازی کے شعبے میں زیادہ مضبوط ہیں۔ پاکستان کو امید ہے کہ ان کے اہم ترین گیندباز محمد عرفان مکمل فٹ ہوکر یہ مقابلہ کھیلیں گے۔ جنوبی افریقہ کو ڈیل اسٹین اور مورنے مورکل جیسے بہترین تیز گیندبازوں کی خدمات میسر ہیں جبکہ چار مقابلوں میں 9 وکٹیں لینےوالے اسپنر عمران طاہر بھی ہمراہ ہیں۔ پھر یہاں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے ہونے والے گزشتہ مقابلے کو بھی دیکھیں تو شاید گیندبازوں کا راج ہی ہو، پھر موسم بھی ابر آلود ہوگا تو تیز گیندبازوں کے چھائے رہنے کا امکان ہے۔

اس مقابلے میں کون سا کھلاڑی کھیل سکتا ہے؟ پاکستان ہوسکتا ہے کہ گزشتہ تین مقابلوں کی ناکامی کے بعد ناصر جمشید کو بٹھا دے اور ان کی جگہ سرفراز احمد کو کھلایا جائے۔ حارث سہیل کی ایڑی میں تکلیف ہے اور وہ بھی اسی صورت میں کھیلیں گے جب مکمل طور پر فٹ ہوں گے۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو ممکنہ طور پر یونس خان حتمی ٹیم میں جگہ پائیں گے۔

جنوبی افریقہ کے بلے باز ژاں-پال دومنی اور تیز گیندباز ویرنن فلینڈر فٹ قرار دیے جاچکے ہیں۔ دومنی کو فرحان بہاردین کی جگہ کھلایا جا سکتا ہے لیکن فلینڈر کو جگہ واپس لینے کے لیے تیز گیندباز کائل ایبٹ سے مقابلہ کرنا پڑے گا کیونکہ وہ ابھی فارم میں چل رہے ہیں۔ وکٹ کیپر بلے باز کوئنٹن ڈی کوک ٹیم کے وہ واحد بلے باز ہیں جو فی الحال فارم میں نہیں ہیں، وہ پچھلی پانچ اننگز میں صرف ایک بار دہرے ہندسے تک پہنچے ہیں۔

ماضی و حال کو ملائیں تو بحیثیت مجموعی جنوبی افریقہ کا پلڑا بھاری ہے۔ دیکھتے ہیں ایڈن پارک میں روایات برقرار رہتی ہیں، پاکستان تاریخ بدلے گا یا بارش دونوں کے ارمان ٹھنڈے کردے گی۔ خیر، پاکستان کے لیے 'مارو یا مرجاؤ' والا مسئلہ نہیں ہے۔ ویسٹ انڈیز کی بھارت کے ہاتھوں شکست نے اس کے لیے معاملات مزید آسان کردیے ہیں، پھر بھی جنوبی افریقہ جیسے حریف کے خلاف جیت اسے عالمی کپ کے لیے سنجیدہ حریف بناسکتی ہے۔