خطرناک روپ دھارتے پاکستان کا مقابلہ آسٹریلیا سے

2 1,038

‏عالمی کپ 2015ء میں دو انتہائی یکطرفہ کوارٹر فائنل مقابلوں کے بعد اب سب کی نظریں پاک-آسٹریلیا مقابلے پر ہیں۔ ایک ایسا مقابلہ جو دیگر میچز کی طرح یکطرفہ بھی ہوسکتا ہے یا پھر توقعات کے برخلاف انتہائی سنسنی خیز معرکہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کا انحصار دونوں ٹیموں کی کارکردگی پر ہوگا۔

آسٹریلیا عالمی کپ میں اب تک صرف ایک مقابلہ ہارا ہے، وہ بھی اعصاب شکن معرکے کے بعد نیوزی لینڈ سے جبکہ پاکستان نے عالمی کپ کا آغاز تو دو کراری شکستوں سے کیا لیکن اس کے بعد مسلسل چار مقابلے جیتا ہے، جس میں جنوبی افریقہ کے خلاف یادگار فتح بھی شامل ہے۔ ایڈیلیڈ کے اسی میدان پر چند روز قبل پاکستان نے آئرلینڈ کے خلاف اپنا آخری گروپ مقابلہ زبردست طریقے سے جیتا ہے اور اب یہیں پر آسٹریلیا کا سامنا کرے گا۔ ایڈیلیڈ اوول میں پاکستان نے آج تک آسٹریلیا کے خلاف 6 مقابلے کھیلے ہیں اور پانچ میں شکست کھائی ہے البتہ یہ میدان آسٹریلیا کے لیے گزشتہ چند سالوں نے باعث رحمت نہیں ہے۔ اسے یہاں کھیلے گئے چھ میں سے صرف دو مقابلوں میں فتوحات ملی ہیں۔ عالمی کپ کی تاریخ میں دونوں ٹیمیں 8 مرتبہ آمنے سامنے آئی ہیں اور چار-چار فتوحات کے ساتھ دونوں میں ٹکر کا مقابلہ ہے۔ لیکن ان سب اعدادوشمار سے ہٹ کر اس وقت دونوں کپتانوں کی نظریں ایڈیلیڈ کی پچ پر ہیں۔ مقابلے سے ایک روز قبل وکٹ پر اتنی گھاس موجود تھی جو تیز گیندبازوں کو للچانے کے لیے کافی ہے۔ آسٹریلیا کے کپتان مائیکل کلارک کہتے ہیں کہ انہیں بہت خوشی ہوگی اگر اس گھاس کو نہ کاٹا جائے۔

آسٹریلیا کو امید ہے کہ ایڈیلیڈ کی پچ پر گھاس کی موجودگی اس کے گیندبازوں کو پاکستان کی نازک بیٹنگ لائن پر قہر ڈھانے میں مدد دے گی۔ لیکن کہیں پاکستان کے لیے کھودے گئے اس گڑھے میں آسٹریلیا خود تو نہیں گر جائے گا؟ آسٹریلیا کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ پاکستان کے تیز گیندبازوں کی عالمی کپ میں کارکردگی بہت عمدہ رہی ہے اور کسی طرح آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ سے کم نہیں ہے۔ اگر وہاب ریاض، سہیل خان اور راحت علی کو ایسی وکٹ مل گئی تو آسٹریلیا کے لیے سخت مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ لیکن اس خطرے سے قطع نظر مائیکل کلارک کہتے ہیں کہ کوارٹر فائنل میں تیزباؤلنگ کا کردار اہم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس مقابلےکو کوارٹر فائنل نہیں بلکہ فائنل سمجھ کر ہی کھیلیں گے۔

دوسری جانب پاکستانی کپتان مصباح الحق کہتے ہیں کہ آسٹریلیا فیورٹ ضرور ہوگا، لیکن یہ کوئی مسلّمہ اصول نہیں کہ فیورٹ ہی جیتے۔ جو ٹیم میچ کے دن اچھا کھیلے گی، جس کو زیادہ مواقع ملیں گے، جس کی قسمت اچھی ہوگی وہ کسی کو بھی شکست دے سکتی ہے۔ اس لیے ہم پرامید ہیں اور مثبت کرکٹ کھیلیں گے۔

اگرواقعی پچ پر موجود گھاس نہیں کاٹی جاتی تو ہوسکتا ہے کہ ہمیں آسٹریلیا-نیوزی لینڈ مقابلے کی طرح ایک لو-اسکورنگ سنسنی خیز معرکہ دیکھنے کو ملے۔

پاکستان ایک مرتبہ پھر 1992ء کی تاریخ دہرانا چاہے گا جب اس نے پرتھ میں آسٹریلیا کو شکست دے کر سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر کردیا تھا لیکن اس کے لیے ٹیم پاکستان کو اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر کچھ کر دکھانا ہوگا بلے بازوں کو گزشتہ مقابلے کی کارکردگی دہرانا ہوگی۔ احمد شہزاد اور سرفراز احمد کو ویسے ہی رنز بنانا ہوں گے اور گیندبازوں کے لیے اتنے رنز جمع کرنا ہوں گے، جن کا وہ آسٹریلیا کی بہترین بیٹنگ لائن اپ کے سامنے دفاع کرسکیں، اگر ایسا نہیں ہوا تو آسٹریلیا باآسانی مقابلہ لے اڑے گا۔

تیسرے کوارٹر فائنل کا فاتح 26 مارچ کو سڈنی میں دفاعی چیمپئن بھارت کا سامنا کرے گا، یعنی اگر پاکستان آسٹریلیا کو شکست دیتا ہے تو ہمیں سڈنی میں تاریخ کا سب سے بڑا مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے، لیکن ہنوز دلّی دور است!