بنگلہ دیش رونے لگا، آئی سی سی پر سخت تنقید

2 1,251

بنگلہ دیش آخر کیوں بین الاقوامی کرکٹ میں کئی دہائیاں گزارنے کے باوجود بڑی ٹیم نہیں بن سکا، کیونکہ ان میں حریف کی جیت کو سراہنے اور اپنی شکست کو سہنے کا حوصلہ نہیں پایا جاتا۔ نہ صرف بھارت کے ہاتھوں عالمی کپ 2015ء کے کوارٹر فائنل میں ہونے والی بدترین شکست کا تمام تر نزلہ مقابلے میں امپائروں کی ناقص کارکردگی پر ڈالا ہے بلکہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے مصطفیٰ کمال تک اپنے موجودہ عہدے اور اس کے تقاضوں کو بھول گئے اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل کا صدر ہونے کے باوجود اس پر سخت ترین تنقید کی ہے اور استعفے کی دھمکی تک دے ڈالی۔

جمعے کی صبح بنگلہ دیش بھر سے شائع ہونے والے اخبارات اپنی ٹیم کی بدترین کارکردگی اور شکست کی نہیں بلکہ امپائروں کے "کارناموں" کی سرخیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ڈھاکہ ٹریبیون لکھتا ہے "امپائروں نے بنگلہ دیش کو ہرا دیا"، جبکہ ایک اخبار نے سرخی جمائی کہ "بھارت اور امپائروں نے بنگلہ دیش کو کوارٹر فائنل میں شکست دے دی۔" ٹیلی وژن اور دیگر ذرائع ابلاغ کا تو ذکر ہی چھوڑ دیں کہ اس معاملے میں ان کا حال بھی پاکستان جیسا ہی ہے۔ لیکن عوام اس حد تک چلے گئے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں امپائر علیم ڈار کا پتلا تک نذر آتش کیا گیا۔

لیکن یہ سب ہنگامہ آخر ہوا کیوں؟ دراصل واقعہ یہ ہے کہ بھارت کے اہم بلے باز روہیت شرما ایک ایسی گیند پر آؤٹ ہوگئے تھے، جو امپائر علیم ڈار کے خیال میں براہ راست کمر سے اونچائی کی بلندی پر آئی تھی، اس لیے انہوں نے نو-بال قرار دیا اور نتیجہ اس گیند پر آؤٹ نہ ہونے کی صورت میں نکلا حالانکہ روہیت کا کیچ پکڑ لیا گیا تھا۔ اس وقت روہیت 91 رنز بنا چکے تھے اور بھارت ویسے ہی مقابلے میں بہت مضبوط پوزیشن پر تھا۔ بعد ازاں روہیت 137 رنز بناکر آؤٹ ہوئے اور بھارت نے 302 رنز اکٹھے کیے۔ اس پر غم و غصہ تو پہلے ہی موجود تھا کچھ دیر بعد بنگلہ دیش کے اہم بلے باز محمود اللہ کو بھی انتہائی متنازع انداز میں آؤٹ دیا گیا۔

جب بنگلہ دیش 33 رنز پر اپنی ابتدائی دو وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا تو ان-فارم محمود اللہ میدان میں اترے اور انہوں نے سومیا سرکار کے ساتھ مل کر مجموعے کو 73 رنز تک پہنچایا۔ یہاں محمد شامی کی ایک شارٹ گیند پر محمود اللہ نے پل کیا اور گیند سیدھا لانگ لیگ پر کھڑے شیکھر دھاون کی جانب گئی، جنہوں نے اسے چھکے کے لیے جانے سے روکا اور پھر باآسانی کیچ پکڑ لیا۔ ری پلے میں بھی بالکل واضح تو نہیں تھا کہ شیکھر نے باؤنڈری لائن کو چھوئے بغیر یہ کیچ تھاما ہے لیکن جس طرح چند روز قبل میچ کے نازک ترین مرحلے پر آئرلینڈ کے فیلڈر جان مونی کی زبان پر اعتبار کرکے زمبابوے کے بلے باز شاں ولیمز کو آؤٹ دیا گیا تھا، شاید اسی طرح یہاں محمود اللہ کو بھی واپسی کا پروانہ تھما دیا گیا۔

بس پھر کیا تھا؟ بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ اور عوام تو کجا، آئی سی سی ے بنگلہ دیشی صدر تک نے یہ کہا کہ "بھارت کو عالمی کپ جتوانے کے لیے سازش کی جارہی ہے،" ایک ایسی بات جو ان کی سطح کے آدمی کو ہرگز زیب نہیں دیتی۔ بہرحال، انہوں نے مزید کہا کہ "بھارت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کوارٹر فائنل میں ا مپائرنگ کا سہارا لیا گیا اور تمام فیصلے بنگلہ دیش کے خلاف سنائے گئے۔" وہ صرف اس بات پر رکے نہیں بلکہ دعویٰ کیا کہ دوسرے کوارٹر فائنل میں 12 فیصلے ایسے تھے جو بھارت کو جتوانے کی کوششوں کا حصہ تھے۔ یعنی کہ مصطفیٰ کمال نے واقعی "کمال" ہی کردیا۔

اپنے ہی صدر کے ان "شاہکار" بیانات پر بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصطفیٰ کمال کے بیانات افسوسناک ہیں۔ "بات کرنے سے پہلے مصطفیٰ کمال کو سوچنا چاہیے تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ امپائروں کی غیر جانبداری پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ کھیل کی روح تقاضا کرتی ہے کہ امپائر کے فیصلے کو حتمی مان کر اس کا احترام کیا جائے۔ یہ کہنا کہ امپائروں نے اپنی قابلیت کے مطابق کارکردگی نہیں دکھائی، بے بنیاد بات ہے اور آئی سی سی اس کی سخت ترین الفاظ میں تردید کرتا ہے۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی بھی ملک کے کرکٹ بورڈ کے سربراہ کو، جبکہ وہ بین الاقوامی کرکٹ کا بھی اہم ذمہ دار ہو، اس طرح کا 'بچکانہ' بیان زیب نہیں دیتا۔