تنقید کریں تذلیل نہ کریں

3 1,125

عالمی کپ 2015ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی شروعات انتہائی مایوس کن تھی۔ پہلے مقابلے میں بھارت سے ہار اور پھر ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شرمناک شکست کے بعد قومی ٹیم اپنے گروپ میں سب سے نچلے نمبر پر آچکی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب قومی ٹیم کو مثبت سوچ اور حوصلہ افزائی کی ضرورت تھی لیکن افسوس کہ ہمارے نام نہاد مبصرین اور ان کے پیش رو فیس بکی و ٹویٹری "دانشوروں"نے ٹیم اور کھلاڑیوں کے بارے میں ایسے تبصرے کیے جو تنقید کے بجائے تذلیل کے زمرے میں آتے ہیں۔

یہ وہ لوگ تھے کہ جو پاکستان اور انگلستان کے عالمی کپ کے سفر کو تمام قرار دے کر دونوں ٹیموں کو ایئرپورٹ پر ملوا رہے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں خود بلّا ٹھیک سے پکڑنا نہیں آتا لیکن مصباح الحق کی تکنیک پر معترض ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے ہم عصر کھلاڑیوں کو بلّے سے مارا لیکن آج وہ ٹیم کے سب سے بڑے ہمدرد بنے بیٹھے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو خود باتھ روموں میں سیلفیاں لیتے نہیں تھکتے تھے لیکن انہیں شاہد آفریدی اور احمد شہزاد کی سیلفیوں پر اعتراض ہے۔اپنے ہی ہم وطنوں کے تمام تر منفی ہتھکنڈوں کے باوجود پاکستانی ٹیم نے سر اٹھایا۔ ٹیم کو مشکلات سے نکالنے والے قائد نے ایک بار پھر ساتھی کھلاڑیوں فتوحات کی راہ دکھائی اور پھر ان ہی ناقدین نے دیکھا کہ پاکستان نے زمبابوے، متحدہ عرب امارات کے بعد عالمی کپ کی فیورٹ ٹیم جنوبی افریقہ کو بھی شکست دی اور آخری مقابلے میں آئرلینڈ کو ہرا کر اگلے مرحلے میں جگہ بنائی۔

عالمی کپ کے تین یکطرفہ کوارٹر فائنلز کے برعکس پاکستان اور آسٹریلیا کا کوارٹر فائنل سب سے دلچسپ رہا۔ میزبان آسٹریلیا ہوم گراؤنڈ، ہوم کراؤڈ، وسیع تجربے اور پے در پے فتوحات کی وجہ سے ہاٹ فیورٹ تھا تو دوسری طرف پاکستان کی وہ ٹیم تھی کہ جسے تاریخ کی سب سے کمزور ترین ٹیم قرار دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود ٹیم میں لڑنے کا جذبہ نظر آیا۔ آسٹریلیا سے شکست پرسب سے زیادہ دکھ کپتان اور کھلاڑیوں ہی کو ہوا جن کی آنکھیں دیر تک اشک بار رہیں۔

کوارٹر فائنل میں شکست کے بعد برساتی مبصرین اپنی منفی سوچ کے ساتھ ایک بار پھر کنویں سے باہر آگئے ہیں۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ٹیم پر انڈے اور ٹماٹر برسانے کے مشورے دیے جا رہے ہیں تو کہیں کھلاڑیوں کو وطن واپسی کے دوران جہاز سے نیچے پھینک دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ بیٹنگ لائن کے واحد ستون کو چالیس سال کا لنگڑا لولا کھلاڑی قرار دیا جا رہا ہے۔ بحیثیت مجموعی ٹیم پر جن الفاظ میں لعنت ملامت کی جا رہی ہے وہ تو یہاں لکھنے کے قابل بھی نہیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا کہ آج قومی ٹیم کے کھلاڑی اپنے ہی وطن میں قدم رکھتے ہوئے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) مجبور ہو کر ائیرپورٹ انتظامیہ سے کھلاڑیوں کی وطن واپسی پر سیکورٹی فراہم کرنے کی درخواست کر رہا ہے۔ ہمارا قائد مصباح الحق اپنے مداحوں سے بات تک نہیں کرسکے گا۔ آخری مقابلے میں جارحانہ مزاج سے عظیم کھلاڑیوں کے دل جیتنے والا وہاب ریاض کسی سے ہاتھ نہیں ملا سکے گا۔ ٹیم کو فتح کی راہ پر گامزن کرنے والا اہم کردار سرفراز احمد کسی کو آٹوگراف نہیں دے سکے گا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے مداح ہونے ناطے آپ کو پورا حق ہے کہ کھلاڑی کی کارکردگی پر اپنی رائے کا اظہار کریں۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کھلاڑی بھی انسان ہیں، غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں، اچھا اور برا وقت ان پر بھی آتا ہے۔ لہٰذا تنقید کے وقت اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ غیر ضروری تنقید یا تذلیل سے کھلاڑیوں کا کچھ اچھا ہوگا نہ برا ہوگا، لیکن آپ کی تعلیم و تربیت پر ضرور سوال اٹھ سکتا ہے۔