پاکستان کرکٹ، 30 مارچ سے 20 مارچ تک

5 1,031

عقلمند وہ ہے جو غلطیوں سے سبق سیکھے، اپنی تیاریوں میں کوتاہی نہ کرے، اس کی منصوبہ بندی میں کوئی جھول نہ ہو، محنت کرے اور آئندہ غلطیوں کے ارتکاب سے بچے، لیکن پاکستان جس طرح چار سال قبل عالمی کپ سے باہر ہوا تھا، تقریباً انہی وجوہات پر اس بار بھی اعزاز کی دوڑ میں برقرار نہ رہ سکا۔

ایسی بلے بازی،جس میں کوئی دم نہیں، جو حریف گیندبازوں پر حاوی نہیں ہوسکتی اور ایسی فیلڈنگ، جس میں 'ہاف-چانسز' پکڑنا تو کجا سیدھا سادے مواقع ضائع کرنے کا زیادہ امکان ہو، اس کے ہوتے ہوئے باؤلرز کیا کرلیں گے؟ وہ بھی اس صورت میں کہ تمام ہی اہم گیندباز ٹورنامنٹ سے باہر ہو اور پاکستان اپنے دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے باؤلنگ اٹیک کے ساتھ عالمی کپ کھیل رہا ہو۔

30 مارچ 2011ء کو جب برصغیر پاک و ہند میں معمولات زندگی تھم گئے تھے، تب بھی بھارت کی بلے بازی کے دوران 6 مرتبہ پاکستان کے کیچ کے آسان مواقع ضائع کیے۔ موہالی کے میدان پر سچن تنڈولکر کی 85 رنز کی اننگز پاکستان کے ہاتھوں سے مقابلہ نکال کر لے گئی، جنہیں ایک، دو نہیں بلکہ چار، پانچ مواقع ملے۔ 261 رنز کے ہدف کا تعاقب پاکستان کی کمزور بیٹنگ لائن کے لیے نانگا پربت سر کرنے سے کم نہیں تھا۔ پھر جیسے جیسے وکٹیں گرتی رہیں، آنے والے بلے بازوں کے ہاتھ پیر پھولتے چلے گئے، یہاں تک کہ بازی گرفت سے نکل گئی۔

چار سال بعد 20 مارچ 2015ء کو بھی ایسا ہی ہوا۔ اس بار پاکستان نے پہلے بلے بازی کی، لیکن انتہائی مایوس کن کارکردگی دکھائی۔ سوائے ایک دو بلے بازوں کے سبھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ شاٹس کھیل کر آؤٹ ہوئے بلکہ ٹیم کے تین مرکزی کھلاڑی مصباح الحق، شاہد آفریدی اور عمر اکمل نے تو ایک ہی جگہ پر کیچ دیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پوری ٹیم صرف 213 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ گیندبازوں نے ایک مرتبہ پھر جان لڑائی، ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا لیکن فیلڈرز دوبارہ آڑے آ گئے۔ پہلے راحت علی نے شین واٹسن کا اس وقت کیچ چھوڑا جب وہ 4 رنز پر کھیل رہے تھے۔ بعد میں وہ 64 رنز بنا کر ناقابل شکست رہے جبکہ سہیل خان نے گلین میکس ویل جیسے خطرناک بلے باز کو اس وقت زندگی عطا کی جب وہ صرف 10رنز بنا پائے تھے۔ بعد ازاں وہ بھی 44 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ میدان سے واپس آئے۔ درحقیقت ان دو مواقع کے ضائع ہونے سے میچ کا رخ پلٹا اور آسٹریلیا باآسانی 6 وکٹوں سے جیت کر سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔

اگر عالمی کپ میں تمام ٹیموں کی فیلڈنگ کارکردگی دیکھی جائے تو شاید ہی پاکستان سے بری کوئی ٹیم رہی۔ پاکستان کے فیلڈرز نے عالمی کپ کے دوران کم از کم 15 مواقع ضائع کیے، جو کسی اور ٹیم نے نہیں گنوائے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وقت آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کی فیلڈنگ بھی پاکستان سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس لیے اگر پاکستان 2019ء کے عالمی کپ میں نتائج کو بہتر بنانا چاہتا ہے، کچھ کر دکھانے کا خواہشمند ہے تو اسے بلے بازی کے بعد سب سے زیادہ توجہ فیلڈنگ کو دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس فیلڈنگ کے ساتھ تو رکی پونٹنگ بھی عالمی کپ نہیں جتوا سکتے تھے، مصباح الحق کس کھیت کی مولی ہیں؟

ویسے تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے لیکن درست کام تاخیر ہی سے سہی لیکن کرنا ضرور چاہیے۔ پاکستان کو اب سمجھنا ہوگا کہ جدید کرکٹ محض بلے بازوں کا کھیل ہے، اس میں گیندبازی کا اب وہ کردار نہیں ہے جو آج سے پندرہ، بیس سال پہلے تھا۔ بھارت ہی کو لے لیں جو عرصے سے اوسط درجے کے باؤلنگ اٹیک کے ساتھ دنیائے کرکٹ پر حکمرانی کررہا ہے۔ وہ نہ صرف دفاعی چیمپئن ہے، بلکہ جاری عالمی کپ میں بھی تمام مقابلے جیتا ہے اور اب تک ناقابل شکست ہے۔ دونوں عالمی کپ کے دوران اس نے آئی سی سی کا دوسرا سب سے بڑا ایک روزہ ٹورنامنٹ چیمپئنز ٹرافی بھی جیتا۔ کیسے؟ صرف اور صرف اپنی بلے بازی کے بل بوتے پر اور عین ممکن ہے کہ اس بار بھی عالمی کرکٹ کا تاج پہنے۔

اس کے مقابلےمیں پاکستان کی بلے بازی اس وقت کم از کم دو دہائی پیچھے ہے۔ عالمی کپ 2015ء کے دوران جب ویسٹ انڈیز نے آئرلینڈ کے خلاف 305 رنز بنائے تھے تو بہت کم شائقین کو توقع تھی کہ آئرلینڈ اس کو عبور کرلے گا لیکن آئرش بلے بازوں نے 46 ویں میں ہی ہدف کو جا لیا۔ اس کے مقابلے میں جب پاکستان کو ویسٹ انڈیز کی اسی گیندبازی کے مقابلے میں 311 رنز کا ہدف ملا تو وہ اس کے دباؤ ہی میں 160 رنز پر ڈھیر ہوگیا۔ اس عالمی کپ کی مہم میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستان کی شکست ایک بدنما داغ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے میدانوں پر قومی کرکٹ ٹیم کی جو منصوبہ بندی تھی اس کے ساتھ 1992ء کا عالمی کپ تو شاید جیتا جا سکتا تھا، 2015ء میں تو ایشیا کپ بھی نہیں جیتا جا سکتا اور اب بھی اگر انقلابی تبدیلیاں نہیں ہوئیں تو شاید 2019ء میں بھی نتائج مختلف نہ ہوں گے، خاکم بدہن!