نیا کپتان: پاکستان اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارتے ہوئے؟

11 1,042

عالمی کپ 2015ء سے اخراج کے ساتھ ہی پاکستان کے ایک روزہ کپتان مصباح الحق اور ٹی ٹوئنٹی کپتان شاہد آفریدی کے ون ڈے کیریئر کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ اب قومی کرکٹ میں 'کروڑوں روپے کا سوال' یہ ہے کہ ایک روزہ میں اگلا کپتان کون ہوگا؟ جتنے منہ، اتنی باتیں ہیں، حقائق کم اور خواہشات زیادہ، لیکن پھر بھی ایک تاثر جو شدت کے ساتھ قائم ہوچکا ہے، کیا جا رہا ہے، کہ اظہر علی کو پاکستان کا نیا ایک روزہ کپتان بنایا جائے گا۔ یعنی پاکستان کرکٹ "اسی کیلے کے چھلکے پر ایک مرتبہ پھر پھسلے گی۔"

جب 2003ء کے عالمی کپ میں بدترین شکستوں کے بعد پاکستان باہر ہوا تو قیادت راشد لطیف کو سونپی گئی تھی۔ صرف تین مہینے آزمایا گیا، پھر ہٹا دیا گیا، اور 6 مہینوں کے اندر اندر بین الاقوامی کیریئر ہی تمام ہوگیا۔ ایسی کئی کہانیاں ہیں کہ جہاں کھلاڑی اپنی کارکردگی کے بلے بوتے پر نہیں بلکہ ٹیم میں صرف اس لیے موجود رہتا ہے کیونکہ وہ کپتان ہے۔

2010ء میں جب اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پاکستان کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا تھا تو نظرِ انتخاب مصباح الحق پر پڑی۔ وہ مصباح جن کے بارے میں سب کو معلوم تھا کہ اب ان کی کرکٹ ختم ہوچکی ہے۔ انہیں کپتان کی حیثیت سے واپس بلایا گیا۔ لیکن دونوں بار نتیجہ کیا نکلا؟ قومی کرکٹ بجائے تین قدم آگے بڑھی اور چار قدم پیچھے گئی یعنی بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے کا سفر کیا۔

گزشتہ چار سالوں میں، یعنی 2011ء سے 2015ء کے عالمی کپ کے دوران، پاکستان کی ایک روزہ کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایشیا کپ 2012ء، بھارت اور جنوبی افریقہ کے خلاف دو یادگار سیریز فتوحات کو ایک طرف رکھ دیں تو شاید ہی پاکستان کرکٹ کے دامن میں کچھ بچے۔ درجہ بندی سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں گرتے گرتے پاکستان اب ساتویں نمبر پر آن پہنچا ہے۔ اس گمبھیر صورتحال میں ایک ایسے بلے باز کو کپتان بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں جس نے خود 2 سال سے کوئی ون ڈے تک نہیں کھیلا۔ یعنی جو اتنے عرصے تک ایک روزہ ٹیم کے لیے منتخب ہونے کے قابل تک نہیں سمجھا گیا، اسے قیادت کا اہم فریضہ سونپا جائے گا۔ نتیجہ کیا نکلے گا؟ وہی دفاعی انداز اور وہی خوف کی فضا جو پچھلے چار سالوں سے ٹیم کے حواس پر چھائی ہوئی ہے۔

گو کہ ابھی تک فیصلے کا حتمی اعلان نہیں ہوا، فی الوقت صرف تخیل کی پروازیں ہیں، قیاس و اندازے ہیں، خواہشات و امکانات ہیں۔ لیکن جس طرح میدان سجایا جا رہا ہے اس سے صاف محسوس ہو رہا ہے کہ اظہر علی ہی پاکستان کے نئے کپتان ہوں گے۔

بلاشبہ اظہر علی ٹیسٹ کے بہت عمدہ کھلاڑی ہیں اور پاکستان کے طویل طرز کی کرکٹ میں ایسے نوجوان اور باصلاحیت بلے بازوں کی اشد ضرورت ہے۔ 39 ٹیسٹ مقابلوں میں 41 سے زیادہ کا اوسط اور 2851 رنز ان کی صلاحیتوں کو ثابت بھی کرتے ہیں لیکن ایک روزہ کرکٹ کے تقاضے کچھ اور ہیں۔

گزشتہ چار سال مصباح الحق کے دفاعی انداز پر ہمیشہ اعتراض ہوتا رہا ہے، اور اس میں کافی حد تک ناقدین درست بھی تھے۔ جدید کرکٹ میں 90 سے کم کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ کھیلنے کی کوئی تُک نہیں بنتی لیکن اظہر علی کے اعدادوشمار پر نظر دوڑائیں، اندازہ ہوجائے گا۔ پورے کیریئر میں صرف 14 مقابلے، اوسط ضرور 41 سے زیادہ کا لیکن اسٹرائیک ریٹ 65 سے بھی کم۔ 30 رنز سے زیادہ کی ان کی شاید ہی کوئی اننگز ہو جو 100 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ کھیلی گئی ہو۔ یہاں تک کہ ان کی چار میں سے تین نصف سنچریاں بھی 70 سے کم کا اسٹرائیک ریٹ رکھتی ہیں۔ اس لیے کم از کم اس کارکردگی کے ساتھ تو اظہر علی کی ایک روزہ ٹیم میں جگہ نہیں بنتی، بجائے اس کے کہ انہیں کپتان بنایا جائے۔

تو آخر کپتان کس کو بنایا جائے؟ اگر پاکستان کسی تجربہ کار کھلاڑی کو کپتان بنانا چاہتا ہے تو اسے محمد حفیظ کو منتخب کرنا چاہیے۔ جس بندے میں اپنی غلطی تسلیم کرنے اور قیادت چھوڑنے کا حوصلہ ہو، کپتانی دراصل اسی کو ملنی چاہیے۔ 2014ء ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد مختصر ترین طرز میں کپتانی سے استعفیٰ دینے والے محمد حفیظ 155 ایک روزہ مقابلوں کا وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں اور ساڑھے 4 ہزار سے زیادہ رنز بھی بنا چکے ہیں۔ اگر وہ اپنے باؤلنگ ایکشن کو شفاف قرار دلوانے میں کامیاب ہوگئے تو اُن سے بہتر انتخاب کوئی نہیں۔ ہاں، یہ بات ضرور ہے کہ اس وقت حفیظ کی عمر خود 34 سال سے زیادہ ہے اور شاید ہی وہ اگلے عالمی کپ تک قومی کرکٹ ٹیم کے ساتھ رہ پائیں۔ اس لیے سب سے بہتر تو یہی ہوگا کہ جنوبی افریقہ کی طرح کسی نوجوان پر اعتماد کیا جائے جس نے 2003ء کے عالمی کپ کے بعد 22 سالہ گریم اسمتھ کو قیادت جیسا اہم فریضہ سونپا تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کو کسی ایسے نوجوان پر بھروسہ کرنا چاہیے جو جدید کرکٹ کے تقاضوں کو سمجھتا ہوں، جارح مزاج ہو اور اپنے ساتھ ٹیم کو بھی آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پھر نئے کپتان کو وقت دیا جائے، اختیارات سے لیس کیا جائے اور سب سے اہم یہ کہ فوری طور پر نتائج نہ مانگے جائیں۔ تجربات میں ناکامیاں ہوتی رہتی ہیں، اس سے سیکھنے اور ٹیم کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے ورنہ آئندہ 4 کیا 20 سال بعد بھی ہم یہیں بیٹھے ایسے ہی بحث کررہے ہوں گے اور قومی کرکٹ بھی اسی مقام پر، بلکہ شاید اس سے بھی بدتر جگہ پر، کھڑی ہوگی۔