پاکستان بے دست و پا، بنگلہ دیش تاریخ رقم کرنے میں کامیاب

2 1,080

جب کارکردگی صفر، ہمت و جذبہ ندارد اور توانائی ناپید ہو تو نتیجہ بنگلہ دیش کے خلاف بھی شکست کی صورت میں ہی نکلنا ہے۔ میرپور میں بنگلہ دیش نے نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے پہلی بار پاکستان کو کسی ایک روزہ سیریز میں شکست دی، جو عالمی کپ سے باہر ہوجانے کے بعد بنگلہ دیش کے لیے کسی عالمی کپ سے کم نہیں۔

گو کہ پاکستان نے آج ٹاس جیت کر خود کو ہدف کے تعاقب کے دباؤ سے آزاد کرنے کی کوشش کی، لیکن نہ صرف ابتدائی بلے بازوں بلکہ خود باؤلرز نے بھی سخت مایوس کیا، جن سے کپتان اور قوم کو بڑی امیدیں تھیں۔ صرف 77 رنز پر پاکستان اپنی آدھی ٹیم سے محروم ہوچکا تھا اور جب سعد نسیم، وہاب ریاض اور حارث سہیل کی کوششوں کی بدولت 239 رنز کے قابل عزت مجموعے تک پہنچ گیا، تو گیندبازوں نے وہ موقع ضائع کیا، جو انہیں بہت مشکل سے میسر آیا تھا۔ ہدف سے دور پھینکی گئی بے ضرر سی گیندیں بنگلہ دیش کیا کینیا کے بلے بازوں کا بھی کچھ نہ بگاڑ سکتی تھیں۔ اسی سے اندازہ لگالیں کہ جب تمیم اقبال نے اپنی نصف سنچری مکمل کی تو 50 رنز میں 12 چوکے شامل تھے، یعنی اتنی بھیانک گیندبازی کی گئی تھی کہ تمیم جیسا اوسط درجے کا بلے باز بھی صرف چوکوں میں سودے بازی کررہا تھا۔ اس سخت جملے پر معذرت، لیکن 30 کا ایک روزہ اوسط رکھنے والا بلے باز درمیانے درجے کا ہی کہا جا سکتا ہے۔ بہرحال، نتیجہ پاکستان کے لیے ایک اذیت ناک شکست کی صورت میں نکلا، ایک ایسی ہار جو مدتوں نہیں بھلائی جائے گی۔

بنگلہ دیش نے مقابلے کے آغاز ہی میں گرفت حاصل کرلی تھی، پاکستان کے ابتدائی بلے بازوں کو ٹھکانے لگانے کے بعد بنگلہ دیش جلد از جلد بساط لپیٹ دینا چاہتا تھا لیکن پاکستان کے نچلے بلے بازوں نے زبردست مزاحمت کی، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کو 240 رنز کا ہدف ملا۔اس ہدف کے تعاقب میں جس اطمینان کے ساتھ بنگلہ دیش نے آغاز لیا، وہ ان کی خوداعتمادی کا اظہار تھا۔ ابتدائی 10 اوورز ہی میں بنگلہ دیش 83 رنز تک پہنچ چکا تھا، وہ بھی تمیم اقبال کے وہاب ریاض کو لگائے گئے تین مسلسل چوکوں کے ساتھ۔ پاکستان کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچی تھی، ابھی تو اس نے پانچویں گیندباز کی کمی پوری کرنے والے آزمائے ہی نہیں تھے اور اسٹرائیک باؤلرز کی یہ درگت بن رہی تھی۔ پاکستان نے پہلے مقابلے کی طرح سومیا سرکار اور محمود اللہ کی وکٹیں تو حاصل کرلیں لیکن تمیم اقبال اور مشفق الرحیم ان کے لیے ایک مرتبہ پھر گلے کی ہڈی ثابت ہوئے۔ اس بار تو ان کو کوئی زندگی بھی نہیں ملی، یعنی کوئی کیچ یا آؤٹ کرنے کا آسان موقع ضائع نہیں ہوا لیکن اس کے بغیر ہی وہ بنگلہ دیش کی کشتی کو پار لگا گئے۔

تمیم اقبال نے اپنی چھٹی اور پاکستان کے خلاف مسلسل دوسری سنچری 108 گیندوں پر 15 چوکوں کے ساتھ مکمل کی۔ وہ مسلسل دو ایک روزہ سنچریاں بنانے والے تاریخ کے محض تیسرے بنگلہ دیشی بلے باز بنے۔ تمیم کی اننگز 17 خوبصورت چوکوں سے مزین رہی، جس میں انہوں نے ایک چھکا بھی لگایا اور 116 گیندوں پر اتنے ہی رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔ تمیم نے تیسری وکٹ پر مشفق الرحیم کے ساتھ 118 رنز جوڑے اور پاکستان کے مقابلے میں واپس آنے کی تمام راہیں مسدود کیں۔ مشفق 70 گیندوں پر 65 رنز کی ایک عمدہ اننگز کھیلنے کے بعد آؤٹ ہونے والے تیسرے کھلاڑی بنے۔ انہوں نے 8 چوکے اور ایک چھکا بھی لگایا۔ بنگلہ دیش نے میچ کے 39 ویں اوور میں ہی ہدف کو جا لیا اور یوں 16 سال بعد پاکستان کے خلاف بین الاقوامی کرکٹ میں فتوحات کے سلسلے کو دراز کرتے ہوئے سیریز کامیابی تک جا پہنچایا۔

قبل ازیں، پاکستان کے ابتدائی بلے بازوں سے جس بھیانک کارکردگی کا تصور کیا جا سکتا تھا،انہوں نے ویسی ہی پرفارمنس دی۔ ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی، ایسی وکٹ پر جو انتہائی سازگار تھی، پاکستان کے بیٹسمینوں کے لیے اعتماد بحال کرنے کا بہترین موقع تھا لیکن انہوں نے اپنے ہاتھوں اس موقع کو ضائع کیا۔ سب سے پہلے سرفراز احمد تھے، جو سلپ میں کیچ دے کر چلتے بنے اورکچھ دیر بعد محمد حفیظ قدموں کا استعمال کرنا تک بھول گئے اور عرفات سنی کی گیند ان کی درمیانی اسٹمپ اکھاڑ گئی۔اظہر علی، جن کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری تھی، ریورس سویپ کھیلنے کی کوشش میں وکٹ کیپر کو کیچ دے گئے جبکہ فواد عالم کے بلّے اور پیڈ کے درمیان اتنی جگہ تھی کہ وہاں سے ایک کیا، شاید دو یا تین گیندیں بھی نکل جاتیں۔ نتیجہ، محمد حفیظ کی طرح ان کے بھی صفر پر آؤٹ ہونے کی صورت میں نکلا اور پاکستان محمد رضوان کے آؤٹ ہوتے ہی صرف 77 رنز پر پانچ بلے بازوں سے محروم ہوچکا تھا۔ پاکستان کے مایوس شائقین تو 100 رنز کی امید بھی چھوڑ بیٹھے تھے جب سعد نسیم اور حارث سہیل نے میدان سنبھالا اور بہت ہی محتاط اور ذمہ دارانہ انداز میں اننگز کو آگے بڑھایا۔ دونوں نے چھٹی وکٹ پر اسکور میں 77 رنز کا اضافہ کیا، یہاں تک کہ ایک عمدہ بیٹنگ پاور پلے کا خاتمہ حارث سہیل کی اننگز کے ساتھ ہوا۔ حارث ایک مرتبہ پھر ایک اچھی اننگز کو نصف سنچری اور مزید بڑی اننگز میں تبدیل نہ کرسکے۔ 61 گیندوں پر 44 رنز کی اننگز مشرفی مرتضیٰ کے ہاتھوں اختتام کو پہنچی۔

154 رنز پر چھ کھلاڑیوں کے آؤٹ ہوجانے پر سعد نسیم کا ساتھ دینے کے لیے وہاب ریاض آئے جنہوں نے آخری 11 اوورز میں 85 رنز کی ناقابل شکست شراکت داری جوڑی اور پاکستان کو 50 اوورز میں 6 وکٹوں پر 239 رنز کے مجموعے تک پہنچایا۔ سعد نسیم نے اپنے دوسرے ہی ایک روزہ میں 77 رنز کی اننگز کھیلی جبکہ وہاب ریاض 51 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔ دونوں نے آخری پانچ اوورز میں 49 رنزکا اضافہ کیا لیکن بعد میں یہ سب بے سود اور بے فائدہ ثابت ہوا۔

پہلی نظر میں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ایک نئے کپتان کی قیادت میں ایک نئی ٹیم کو شکست ہوئی ہے، لیکن محمد حفیظ، سعید اجمل، فواد عالم اور جنید خان جیسے معروف کھلاڑیوں کی ناکامی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان نے انہی کے آسرے پر نئے کھلاڑیوں کو شامل کیا تھا اور دونوں مقابلوں میں ان کی ناکامی نے پاکستان کی سیریز شکست میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ بہرحال، اب تیسرا اور آخری ایک روزہ مقابلہ پاکستان کے لیے بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ 22 اپریل کو ہونے والے اس مقابلے میں پاکستان کو کلین سویپ کی ہزیمت اور عالمی درجہ بندی میں آٹھویں نمبر پر تنزلی سے بچنے کے لیے لازمی فتح درکار ہوگی۔