ڈیڑھ سال بیت گیا، پاکستان شکست سے دامن نہیں چھڑا سکا

4 1,013

ہم جسے ناممکنات میں سے ایک سمجھتے تھے، اب حقیقت کا روپ دھار کر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ بنگلہ دیش کے مقابلے میں دنیا کی سب سے بڑی قوت پاکستان بالآخر مقابلہ ہی نہیں بلکہ سیریز بھی ہار گیا۔ ایک ایسی ٹیم جس کے خلاف 16 سالوں میں بنگلہ دیش کوئی ٹیسٹ، کوئی ون ڈے یہاں تک کہ کوئی ٹی ٹوئنٹی تک نہیں جیت پایا تھا، اب مسلسل دو شکستوں کے بعد اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہوا؟ بنگلہ دیش کی انتھک محنت اور لگن سے، جدوجہد سے، یقینِ کامل اور امیدِ واثق سے۔ اُس نے پاکستان کی ہر ہر کمزوری کا فائدہ اٹھایا اور ظفرمند ثابت ہوا جبکہ پاکستان نے ہر اس غلطی کا اعادہ کیا، جو اسے نہیں کرنی چاہیے تھی۔ حکمت عملی سے عاری اور منصوبہ بندی سے خالی ہونے کا نتیجہ ایک اور سیریز شکست میں نکلا ہے، اور یوں کسی ایک روزہ سیریز کو جیتنے کا خواب پچھلے ڈیڑھ سال سے محض خواب ہی ہے۔

اگر محض پاکستان کی بات کریں تو وہ فتح کے لیے درکار تمام جوہروں سے محروم دکھائی دیا۔ مصباح الحق اور شاہد آفریدی کے جانے کے بعد جس دستے کا انتخاب کیا گیا، اسے بہتر کہا جا سکتا ہے۔ اس میں وہ تمام کھلاڑی شامل ہیں، جنہیں اُن کی کارکردگی کی بنیاد پر واقعتاً منتخب ہونا چاہیے تھا لیکن پاکستان حتمی گیارہ کھلاڑیوں کے انتخاب میں بھیانک غلطی کا مرتکب ہوا ہے، وہ بھی ایک بار نہیں بلکہ دونوں مقابلوں میں۔ ایک تو انہوں نے بنگلہ دیش کو ایک کمزور حریف جانا۔ ایک ایسی ٹیم، جو کم از کم اپنے میدانوں پر تو بڑی قوت تسلیم کی جاتی ہے، اس کے خلاف محض چار مستند گیندبازوں کے ساتھ میدان میں اترا۔ ان میں سے بھی ایک وہ، جو آٹھ مہینے کی پابندی کے بعد پہلی بار منظرعام پر آیا۔ باقی رہ گئے تین، تو ان میں سے بھی دو ہی ایسے ہیں جو ابھی کھیلتے آ رہے ہیں یعنی وہاب ریاض اور راحت علی۔ یہ فیصلہ دراصل حریف کی 'توہین' تھا، جس کی انہوں نے پاکستان کو خوب خوب سزا دی۔ پہلے مقابلے میں 329 رنز اور دوسرے میں محض 39 ویں اوور میں 240 رنز کا ہدف حاصل کرکے۔

دوسرا، پاکستان نے اپنی کسی غلطی سے سبق نہیں سیکھا۔ پہلے مقابلے میں شکست کے باوجود دوسرے ایک روزہ میں گیندبازی کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا اور انہی چار گیندبازوں کے ساتھ میدان میں اترے۔ علاوہ ازیں سرفراز احمد کی بحیثیت اوپنر ناکامی کے بعد بہتر یہی تھا کہ دوسرے مقابلے میں اسپیشلسٹ اوپنر محمد حفیظ کو اوپر کھلایا جاتا لیکن دونوں مقابلوں میں سرفراز اننگز کو آغاز کے لیے میدان میں اتارا گیا، وہ خود بھی ناکام ہوئے اور ون ڈاؤن پوزیشن پر حفیظ بھی۔

دیکھا جائے تو ایک روزہ کرکٹ پاکستان کے لیے ایک بھیانک خواب بن چکی ہے۔ ٹیسٹ میں عالمی درجہ بندی میں چوتھے اور ٹی ٹوئنٹی میں تیسرے نمبر پر موجود، اور مزید آگے بڑھنے کے واضح امکانات کے برعکس ایک روزہ میں پاکستان کو ساتویں مقام پر بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے خلاف تیسرے ایک روزہ میں بھی شکست اسے آٹھویں نمبر پر لے جائے گی۔ اس بدترین درجے تک پاکستان محض ایک، دو دن میں نہیں پہنچے گا بلکہ یہ سالہا سال کی بدترین کارکردگی کا نتیجہ ہوگا۔ گزشتہ 7 سالوں میں پاکستان نے محض چند ایک ہی قابل ذکر ایک روزہ فتوحات حاصل کی ہیں۔ 2012ء میں ایشیا کپ اور 2013ء میں بھارت اور جنوبی افریقہ کے خلاف فتوحات، ان کے علاوہ پاکستان کا دامن یادگار فتوحات سے مکمل طور پر خالی ہے۔ پچھلے تقریباً ڈیڑھ سال سے تو پاکستان نے کوئی ایک روزہ سیریز یا ٹورنامنٹ نہیں جیتا۔

دسمبر 2013ء میں سری لنکا کے خلاف متحدہ عرب امارات میں سیریز جیتنے کے بعد سے اب تک پاکستان کو تمام ہی ایک روزہ سیریز میں شکست ہوئی ہے۔ پہلے مارچ 2014ء میں اپنے ایشیائی اعزاز سے محرومی کا دکھ اٹھانا پڑا، پھر دورۂ سری لنکا میں ناکامی، پھر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں شکست، گزشتہ ماہ عالمی کپ میں کوارٹر فائنل سے اخراج اور اب زوال کی بدترین علامت بنگلہ دیش کے ہاتھوں سیریز شکست۔ یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا؟ فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ شکست تو کھیل کا حصہ ہے لیکن جس آسانی کے ساتھ قومی کھلاڑیوں نے حالیہ دورے میں اسے قبول کیا ہے، وہ ناقابل برداشت ہے۔ کھلاڑیوں کی جسمانی و ذہنی کیفیت، میدان میں سمجھ سے بالاتر کارکردگی اور اس کےبعد نتائج سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ انہیں اعتماد نہیں بخشا گیا، حوصلہ نہیں دیا گیا۔ عالمی کپ کی بڑی شکست کے بعد انہیں دوبارہ میدان میں لانے کے لیے تیار کرنے کی ضرورت تھی اور ٹیم انتظامیہ نے یہ کام اچھی طرح انجام نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مناسب دستہ ہونے کے باوجود نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہوگی کہ اس سیریز کے بعد چند کھلاڑیوں کو قربانی کا بکرا بنایا جائے۔ پاکستان ہرگز اس حرکت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگر ایسا کیا گیا تو خاکم بدہن، 2019ء کے عالمی کپ کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ بنگلہ دیش نہیں بلکہ پاکستان کھیل رہا ہوگا۔