وقار کی ”واپسی“، پاکستان کو راس نہیں آئی؟

6 1,024

دنیا آگے کا سفر کررہی ہے، حالانکہ بنگلہ دیش بھی اب دنیا کی بڑی ٹیموں کے حلق کا کانٹا بنتا جارہا ہے اور عالمی کپ میں انگلستان کے خلاف کامیابی حاصل کرکے کوارٹر فائنل بھی کھیل چکا ہے لیکن پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہوگا جس کی کرکٹ سالوں سے الٹے قدموں جارہی ہے۔ بالخصوص ایک روزہ کرکٹ میں تو پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل زوال پذیر ہے۔ وجہ؟ ناقص منصوبہ بندی، جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونا اور جارحانہ کرکٹ سے دامن بچانا ہے۔ اس میں فرد، یا افراد، کا کتنا کردار ہے، اس بارے میں فی الحال کچھ کہنا مناسب نہیں۔ ہاں، یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ کوچ وقار یونس اور پاکستان کا قسمت کنکشن نہیں مل رہا۔

وقار یونس کا یہ پاکستان کی کوچنگ کا دوسرا تجربہ ہے۔ گو کہ وہ 2006ء میں پاکستان کے لیے باؤلنگ کوچ کی ذمہ داری سنبھال چکے تھے لیکن ہیڈ کوچ کی حیثیت سے پہلی بار انہیں اس وقت معاملات سونپے گئے جب پاکستان آسٹریلیا کے تباہ کن دورے سے لوٹا تھا۔ شکست کی تحقیقات ہو رہی تھیں، تجربہ کار کھلاڑیوں پر پابندیاں اور جرمانے لگ رہے تھے اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے اعزاز کا دفاع سر پر تھا جب وقار یونس نے ذمہ داری سنبھالی۔ پہلے ہدف میں ہی ناکام ہوئے، پاکستان ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے سیمی فائنل میں آسٹریلیا ہی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوا۔

لیکن 2010ء ایک ہنگامہ خیز سال تھا۔ پاکستان نے انگلستان کے میدانوں پر آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز تو برابر کرلی لیکن اس کے بعد انگلستان کے ہاتھوں نہ صرف تمام طرز کی کرکٹ میں شکست کھائی بلکہ اسپاٹ فکسنگ جیسے اسکینڈل کا طوق بھی گلے میں ڈال لیا۔ اتنی بدنامی اور تذلیل شاید ہی کسی اور ٹیم نے کبھی اٹھائی ہو جو پاکستان نے اسپاٹ فکسنگ تنازع میں ملوث ہونے کے بعد اٹھائی۔ پاکستان کرکٹ کی بنیادیں تک ہل چکی تھیں تو فتوحات کہاں سے ملتیں؟ جنوبی افریقہ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں شکست، عالمی کپ 2011ء میں سیمی فائنل سے اخراج اور پھر آخر میں کپتان شاہد آفریدی کے ساتھ تنازع۔ وقار یونس کا پہلا دور شکستوں اور تنازعات کے ساتھ مکمل ہوا۔ اس پورے عرصے میں چند معمولی کامیابیاں ہی مل سکیں جیسا کہ 2010ء کے اواخر میں نیوزی لینڈ کے دورے پر ٹیسٹ اور ایک روزہ سیریز میں جیت اور جاتے جاتے ویسٹ انڈیز میں ایک روزہ سیریز کی کامیابی، ورنہ پاکستان اس پورے عرصے میں تہی دامن ہی رہا۔

اب بدقسمتی سے وقار یونس کا دوسرا عہد بھی پہلے دور کی نقل دکھائی دے رہا ہے۔ وقار نے جون 2014ء میں دوسری بار پاکستان کی کوچنگ کی ذمہ داری سنبھالی تو ان کا پہلا امتحان اگست میں سری لنکا کا دورہ تھا۔ جہاں نہ صرف ٹیسٹ بلکہ ایک روزہ سیریز میں بھی پاکستان کو شکست ہوئی۔ پھر آسٹریلیا کے خلاف متحدہ عرب امارات میں محدود اوورز کی دونوں سیریز میں ناکامیاں مقدر ٹھیریں اور نیوزی لینڈ نے بھی ایک روزہ سیریز میں شکست دی۔ پھر عالمی کپ سے قبل نیوزی لینڈ کے دورے میں دونوں مقابلوں میں ناکامی، عالمی کپ میں بدترین آغاز اور مایوس کن اختتام اور اب ان سب سے بڑھ کر بنگلہ دیش کے خلاف کلین سویپ۔ یہ شکستوں کی وہ طویل فہرست ہے جو وقار یونس کے دور میں پاکستان کے دامن میں آئی ہیں۔ دوسرے عہد میں محض ایک کامیابی ملی ہے، آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں جیت۔ لیکن ایک روزہ میں تو وقار یونس کا دوسرا عہد مکمل طور پر خالی ہے، ناکامی پر ناکامی، ناکامی پر ناکامی، ٹیم تو جنم جلی دکھائی دیتی ہے۔

عالمی کپ کے بعد بنگلہ دیش کے دورے پر کلین سویپ شکست نے تو گویا تازیانے کا کام کیا ہے۔ قومی کھلاڑی تھکے تھکے دکھائی دیتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اعتماد نہیں دیا گیا، ان کے حوصلوں اور عزائم کو تقویت نہیں بخشی گئی۔ خاص طور پر قیادت کی تبدیلی اور ایک نوجوان کے ہاتھ پہلی بار کپتانی آنے کے بعد تو کوچ کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے، لیکن کم از کم بنگلہ دیش میں تو ہمیں ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا۔ باؤلنگ جو ہمیشہ پاکستان کا طرۂ امتیاز رہی ہے اور اسی کے ذریعے پاکستان نے ماضی قریب میں بھی چند یادگار اور اہم سیریز جیتی ہیں، بنگلہ دیش کے خلاف چاروں خانے چت دکھائی دی۔ اپنے عہد کے بہترین گیندباز ہونے کے باوجود وقار پاکستان کے تیز گیندبازوں میں وہ توانائی کیوں نہیں بھر سکے؟ وہ بجلی سی کوندتی کیوں نہیں دکھائی دیتی؟ یہ بہت بڑا سوال ہے اور اس کا جواب وقار یونس خود ہی دے سکتے ہیں اور اس کا بھی ایک ہی طریقہ ہے، کارکردگی! معاہدے کے تحت انہیں ابھی مئی 2016ء تک کوچنگ کرنی ہے۔ یعنی ان کے پاس ایک سال مزید باقی ہے۔ اگر وہ نوجوان کھلاڑیوں کو میدان میں لڑانے میں کامیاب ہوگئے، انہیں جھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کا گر سکھا گئے تو کوئی شبہ نہیں کہ عرصے تک یاد رکھے جائیں گے لیکن اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو "داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں"!