لاہور میں یادگار مقابلہ، پاکستان کی شاندار کامیابی

3 1,049

مختار احمد کی دھواں دار بلے بازی اور احمد شہزاد کے ساتھ ان کی 142 رنز کی ریکارڈ شراکت داری نے پاکستان کو زمبابوے کے خلاف تاریخی ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں 5 وکٹوں سے شکست دے دی۔ لیکن نہ ہی اس مقابلے میں کسی ایک ٹیم کا جیتنا یا ہارنا کوئی معنی رکھتا ہے، اور نہ ہی سیریز میں، جو بھی جیتے حقیقی فتح دراصل کرکٹ کی ہوگی۔ یہ چھ سالوں کے بعد پاکستان میں ہونے والا پہلا بین الاقوامی مقابلہ تھا، جس کے لیے جوش و خروش کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض چند گھنٹوں میں ہی پہلے مقابلے کے تمام ٹکٹ فروخت ہوگئے اور میچ کے آغاز سے گھنٹوں پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں افراد قذافی اسٹیڈیم کے باہر جمع تھے۔

زبردست جوش و خروش کے دوران زمبابوے کے کپتان ایلٹن چگمبورا نے ٹاس جیتا اور پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ بلے بازی کے لیے سازگار وکٹ کو دیکھتے ہوئے زمبابوے نے پاکستان کی باؤلنگ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ساتویں اوور میں ہی مجموعہ 58 رنز کو چھو رہا تھا جب محمد سمیع نے ووسی سبانڈا کو آؤٹ کرکے پاکستان کو پہلی وکٹ دلائی۔ لیکن اصل خطرہ دوسرے کنارے پر کھڑے ہملٹن ماساکازا تھے۔ جنہوں نے صرف 26 گیندوں پر 43 رنز بنا رکھے تھے، سمیع نے اگلی ہی گیند پر ان کو بولڈ کردیا اور یوں پاکستان نے کچھ سکھ کا سانس لیا۔ نویں اوور میں وہاب ریاض نے چارلس کوونٹری کو وکٹوں کے پیچھے کیچ کراکے زمبابوے کو تیسرا نقصان پہنچایا۔ یہیں سے زمبابوے کی رنز بنانے کی رفتار تھم گئی۔ اننگز تہرے ہندسے میں پہنچی تو شاں ولیمز شعیب ملک کی واحد وکٹ بنے۔ پاکستان ایک کنارے سے تو وکٹیں لیتا رہا لیکن دوسرے اینڈ پر حریف کپتان کو روکنے میں ناکام رہا۔ ایلٹن چگمبورا نے صرف 35 گیندوں پر 54 رنز کی دھواں دار اننگز کھیلی اور زمبابوے کو 20 اوورز میں 172 رنز تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

پاکستان کے گیندباز 6 وکٹیں لینے میں ہی کامیاب ہوئے جن میں سے تین محمد سمیع کو ملیں۔ مسلسل دو گیندوں پر سبانڈا اور ماساکازا کو آؤٹ کرنے کے بعد سمیع کو ہیٹ ٹرک کا موقع ملا لیکن وہ اس کافائدہ نہ اٹھا سکے۔ اگر وہ ہیٹ ٹرک کر لیتے تو کرکٹ تاریخ کے واحد گیندباز بن جاتے جنہیں تینوں طرز کی کرکٹ میں ہیٹ ٹرک ملتی، لیکن وہ اس سنگ میل تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ البتہ انہوں نے اچھی گیندبازی کی، 4 اوورز میں 36 رنز دیے اور تین شکار کیے۔ انور علی نے 3 اوورز پھینکے اور 18 رنز دیے جبکہ شعیب ملک نے اتنے ہی اوورز میں صرف 12 رنز دے کر ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ اس کےعلاوہ باقی گیندباز مہنگے ثابت ہوئے۔ خاص طور پربلاول بھٹی، جنہوں نے 3 اوورز میں 37 رنز کھائے جبکہ کپتان شاہد آفریدی کو اتنے ہی اوورز میں 28 رنز پڑے۔ وہاب ریاض نے 4 اوورز میں 38 رنز دیے اور 2 وکٹیں لیں۔

پاکستان کی بلے بازی کی حالیہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے 173 رنز بہت بڑا ہدف تھا لیکن مختار احمد اور احمد شہزاد نے اسے پہاڑ سے رائی بنا دیا۔ خاص طور پر مختار احمد مقابلے پر ابتداء ہی سے چھائے ہوئے دکھائی دیے۔ انہوں نے متعدد مواقع پر تین، تین چوکے لگائے اور جب چودہویں اوور میں یہ شراکت داری ٹوٹی تو پاکستان 142 رنز پر کھڑا تھا۔ یہ کسی بھی پاکستانی اوپنرز کی طویل ترین شراکت داری کا ریکارڈ ہے۔ 2010ء میں کامران اکمل اور سلمان بٹ نے بھی پہلی وکٹ پر 142 رنز جوڑے تھے۔ احمد شہزاد سست آغاز کے بعد 39 گیندوں پر 55 رنز کی عمدہ اننگز کھیل کر آؤٹ ہوئے جس میں ایک چھکا اور 6 چوکے شامل تھے۔ لیکن جس نے میلہ لوٹا وہ مختار احمد تھے۔ انہوں نے تین چھکوں اور 12 چوکوں کی مدد سے صرف 45 گیندوں پر 83 رنز بنائے۔ وہ سنچری کے حقدار تھے لیکن لانگ آن پر چھکا لگانے کی ناکام کوشش نے ان کی اننگز وقت سے پہلے ختم کردی۔ پاکستان نے ان دونوں بلے بازوں کے آؤٹ ہونے کے بعد مزید 3 وکٹیں گنوائیں، یہاں تک کہ آخری اوور میں شعیب ملک بھی آؤٹ ہوگئے، لیکن شاہد آفریدی کے چوکے کی بدولت پاکستان نے مقابلہ جیت لیا۔

مختار احمد کو شاندار اننگز پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا لیکن درحقیقت یہ ایوارڈ ان ہزاروں تماشائیوں کو ملنا چاہیے جنہوں نے قذافی اسٹیڈیم کا رخ کیا اور اسے ایک شاندار و یادگار مقابلہ بنا دیا۔

اب لاہور ہی میں دوسرا ٹی ٹوئنٹی مقابلہ 24 مئی کو کھیلا جائے گا۔ زمبابوےسیریز برابر کرپائے گا یا نہیں، اس کے بارے میں ایک اور یادگار مقابلے میں ہی معلوم ہوگا۔