'یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا؟' نیوزی لینڈ کو بدترین شکست

1 1,042

انگلستان کا حال بھی جہاں میں "اہلِ ایماں" جیسا ہوگیا ہے، اِدھر ڈوبے تو اُدھر نکلے اور اگر اُدھر ڈوبتے ہیں تو اِدھر نکل آئے۔ کہاں پے در پے شکستوں سے بے حال ٹیم، اور اب ایک ہی دن میں یہ عالم کہ اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فتح حاصل کی ہے، وہ بھی ایسی ٹیم کے خلاف جو حالیہ عالمی کپ کا فائنل کھیلی۔ ریکارڈ کارکردگی، شراکت داری اور چھکوں کی مدد سے نیوزی لینڈکی عظمت کا نوتعمیر شدہ بت پاش پاش کردیا۔ وہی نیوزی لینڈ جو عالمی کپ میں پے در پے مقابلے جیتنے کے بعد فائنل تک پہنچا اور فائنل میں شکست کے بعد اب پہلے ہی ایک روزہ میں پورے 210 رنز کے بھاری فرق سے شکست کھا بیٹھا۔

جب نیوزی لینڈ کے کپتان برینڈن میک کولم نے ٹاس جیتا اور ٹرینٹ بولٹ نے میچ کی پہلی ہی گیند پر جیسن روئے کی وکٹ بھی حاصل کرلی تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ آگے کیا طوفان آنے والا ہے۔ آٹھویں اوور میں 50 رنز پر انگلستان دونوں اوپنرز گنوا بیٹھا تھا جب جو روٹ نے کپتان ایون مورگن کے ساتھ ایک ایسی بنیاد ڈالی جس پر انگلستان نے بعد ازاں اپنی تاریخ کا سب سے بڑا مجموعہ اکٹھا کیا۔ مورگن کی تین شاندار چھکوں سے مزید نصف سنچری اننگز نے 23 ویں اوور میں ہی انگلستان کو 171 رنز تک پہنچا دیا۔ مورگن 46 گیندوں پر 50 رنز بنانے کے بعد میدان سے واپس آئے اور اگلے ہی اوور میں روٹ اپنی پانچویں ایک روزہ سنچری مکمل کرنے کے بعد ٹرینٹ بولٹ کے ہاتھوں آؤٹ ہوگئے۔ انہوں نے صرف 78 گیندیں کھیلیں اور 104 رنز بنائے، جس میں دو چھکے اور 13 چوکے بھی شامل تھے۔

30 اوورز کا سنگ میل عبور ہونے سے قبل ہی انگلستان ان دونوں سیٹ بلے بازوں کے علاوہ مزید دو وکٹیں گنوا بیٹھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ انگلش اننگز پٹری سے اتر جائے گی لیکن جوس بٹلر نے یہاں صرف 66 گیندوں پر سنچری بنا ڈالی۔ وہ انگلستان کی طرف سے تیز ترین سنچری کا ریکارڈ ویسے ہی رکھتے ہیں، جو انہوں نے 61 گیندوں پر بنائی تھی، اب دوسری تیز ترین سنچری کا اعزاز بھی حاصل کرلیا ہے۔ ان کی اس اننگز کی بدولت بٹلر اور عادل رشید نے صرف 17 اوورز میں 177 کا اضافہ کیا جو ساتویں وکٹ پر عالمی ریکارڈ شراکت داری ہے۔ عادل نے 50 گیندوں پر 7 چوکوں کے ساتھ 69 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی جبکہ بٹلر 77 گیندوں پر پانچ چھکوں اور 13 چوکوں کی مدد سے ایک یادگار اننگز کھیلنے کے بعد آؤٹ ہوئے۔ انگلستان نے آخری اور میں لایم پلنکٹ کے دو چھکوں نے انگلستان کو پہلی بار 400 رنز کے ذائقے سے روشناس کرایا۔

اس سے قبل انگلستان کا بہترین ایک روزہ مجموعہ 391 رنز تھا اور آج روٹ اور بٹلر کی اننگز اور دیگر بلے بازوں کے بہترین ساتھ کی بدولت انگلستان ان ٹیموں میں شامل ہوگیا ہے جو 400 یا اس سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز رکھتی ہیں۔ اتنے زیادہ رنز بننے کا واضح مطلب ہے کہ نیوزی لینڈ کے گیندباز ناکام رہے۔ ان کے اعدادوشمار ہی بتانے کے لیے کافی ہیں۔ مچل میک کلیناگھن کے 10 اوورز میں 93 رنز پڑے، میٹ ہنری نے 73 رنز دیے، ناتھن میک کولم کو 7 اوورز میں 66 جبکہ گرانٹ ایلیٹ کو پانچ اوورز میں 57 رنز کی مار سہنا پڑی۔ صرف ٹرینٹ بولٹ کسی حد تک اس "بلّا چارج" سے بچے رہے جن کے 10 اوورز میں 55 رنز ہی بنے اور انہوں نے چار وکٹیں بھی حاصل کیں۔

اتنے بڑے ہدف تلے تو بڑے بڑے سورماؤں کا پتہ پانی ہوجاتا ہے، نیوزی لینڈ کے بلے باز کیا کرلیتے۔ وہی ہوا جو دباؤ تلے ہونا چاہیے تھا۔ پہلے ہی اوور میں کپتان میک کولم بولڈ ہوئے تو نیوزی لینڈ کا آدھا دم تو ویسے ہی نکل گیا۔ ساتویں اوور میں جب مجموعہ 52رنز کو چھو رہا تھا تو اسٹیون فن نے مارٹن گپٹل کی بھی چھٹی کرا دی۔ نیوزی لینڈ کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت پہنچا جب عادل رشید نے 45 رنز بنانے والے کین ولیم سن کو ٹھکانے لگایا۔ اس کے بعد گرانٹ ایلیٹ اور روس ٹیلر نے 66 رنز کی شراکت داری سے مقابلے میں برقرار رہنے کی کوشش کی جو بعد ازاں آخری مزاحمت ثابت ہوئے۔ ایلیٹ کے رن آؤٹ ہوتے ہی اننگز تتر بتر ہوگئی۔ محض 38 رنز کے اضافے سے آخری 7 وکٹیں گریں اور پوری ٹیم 32 ویں اوور میں 198 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ روس ٹیلر 57 رنز کے ساتھ قابل ذکر بلے باز رہے۔

عادل رشید نے جہاں بلے بازی میں اپنے جوہر دکھائے وہیں گیندبازی میں بھی چھائے رہے اور چار وکٹیں حاصل کیں۔ البتہ انگلش باؤلنگ کے اصل ہیرو اسٹیون فن تھے جنہوں نے 7 اوورز میں صرف 35 رنز دے کر چار بلے بازوں کو آؤٹ کیا۔

جوس بٹلر کو ایک یادگار سنچری بنانے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

سیریز کا دوسرا مقابلہ 12 جون کو اوول میں کھیلا جائے گا جہاں انگلستان کو ثابت کرنا ہوگا کہ اس کی کارکردگی محض اتفاقی نہیں تھی۔