جب پاکستان ایک روزہ میں نمبر ’ون‘ بنا!

2 1,128

پاکستان کی کرکٹ کس تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے، اس کا اندازہ صرف ایک ڈیڑھ دہائی قبل قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے۔ آج پاکستان عالمی درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے اور ہوسکتا ہے کہ سری لنکا کے خلاف آئندہ سیریز میں شکست اسے اگلی چیمپئنز ٹرافی سے ہی باہر کردے، لیکن صرف 13 سال پہلے پاکستان ون ڈے کرکٹ میں نمبر ایک تھا۔ جی ہاں! 2002ء میں پاکستان دنیا کی بہترین ایک روزہ ٹیم تھا اور یہ اعزاز وقار یونس کی زیر قیادت اپنے وقت کے بہترین دستے آسٹریلیا کو اسی کے ملک میں شکست دے کر حاصل کیا تھا۔

جون 2002ء کے انہی گرم ایام میں جب پاکستان عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر تھا، تو وقار یونس کی زیر قیادت قومی دستہ سپر چیلنج II سیریز کھیلنے آسٹریلیا پہنچا تھا۔ سپر چیلنج I وہ سیریز تھی جو 2000ء میں جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے درمیان ملبورن کے چھت والے ڈاک لینڈز اسٹیڈیم میں کھیلی گئی تھی۔ یہ ایک یادگار سیریز تھی جو برابری کی سطح پر مکمل ہوئی، ایک مقابلہ آسٹریلیا نے جیتا، ایک جنوبی افریقہ نے ایک برابری کی بنیاد پر ختم ہوا۔ بہرحال، جب پاکستان دوسرے چیلنج سے نمٹنے کے لیے پہنچا تو اس وقت پاکستان بہترین ٹیم شمار کیا جا سکتا تھا۔ وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، سعید انور، انضمام الحق اور شاہد آفریدی جیسے زبردست کھلاڑی دستے میں شامل تھے اور ان کا مقابلہ کرتے ہوئے دنیا کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کا پتہ پانی ہوتا تھا۔ گو کہ پاکستان کو عبد الرزاق اور ثقلین مشتاق کی خدمات حاصل نہ تھیں لیکن پھر بھی مقابلہ ٹکر کا ہونے کی امیدضرور تھی۔

پہلا مقابلہ 12 جون 2002ء کو ڈاک لینڈز کے اسی اسٹیڈیم میں کھیلا گیا، جو ایک عظیم چھت کے ذریعے ڈھکا ہوا تھا۔ آسٹریلیا نے ٹاس جیتا اور پاکستان کو ایسا بے بے کیا کہ وہ مقررہ 50 اوورز میں صرف 176 رنز بنا سکا۔ اینڈی بکل نے 30 رنز دے کر تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، جن میں انضمام الحق، یونس خان اور اظہر محمود شامل تھے جبکہ موجودہ آسٹریلوی کوچ ڈیرن لیمن نے بھی جزوقتی گیندباز کی حیثیت سے دو وکٹیں حاصل کیں۔ عمران نذیر 39 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں بلے باز رہے۔ آسٹریلیا نے مقررہ ہدف باآسانی 33 ویں اوور میں محض تین وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔ ایڈم گلکرسٹ نے جارحانہ 56 رنز بنائے اور مردِ میدان کا خطاب حاصل کیا۔

پاکستان کے لیے پہلا مقابلہ تو بہت ہی مایوس کن رہا۔ کسی بھی بھی اتنے یکطرفہ مقابلے اور پاکستان کی بدترین ہار کی توقع نہ تھی۔ بہرحال، دو دن آرام کے بعد 15 جون کو ایک مرتبہ پھر ڈاک لینڈز ہی میں میدان سجا۔ ٹاس تو اس مرتبہ بھی آسٹریلیا کے نام رہا لیکن اس بار رکی پونٹنگ نے پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور یوں ٹاس جیتنے کے ثمرات حاصل نہ کرسکے۔ تقریباً وہی کہانی آسٹریلیا کے ساتھ دہرائی گئی جو گزشتہ مقابلے میں پاکستان کے ساتھ ہوئی تھی۔ مقابلے کی پہلی ہی گیند پر وسیم اکرم نے ایڈم گلکرسٹ کو وکٹوں کے پیچھے آؤٹ کرا دیا۔

رکی پونٹنگ محض دو گیندوں کے مہمان ثابت ہوئے اور وسیم نے خود اپنی ہی گیند پر ان کا شاندار کیچ لیا یعنی صفر پر ہی آسٹریلیا دو بہترین بلے بازوں سے محروم ہوچکا تھا۔ آنے والوں میں ڈیمین مارٹن نے 56، ڈیرن لیمن نے 31 اور مائیکل بیون نے 30 رنز بنائے، باقی کوئی بلے باز 20 سے زیادہ رنز نہ بنا سکا اور پوری ٹیم 46 ویں اوور میں محض 167 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ وسیم اکرم اور شاہد آفریدی نے بہترین گیندبازی سے تین، تین وکٹیں حاصل کیں۔

گو کہ آغاز پاکستان کا بھی اچھا نہ تھا اور سعید انور کوئی گیند کھیلے بغیر پہلے ہی اوور میں رن آؤٹ ہوئے اور ون ڈاؤن آنے والے اظہر محمود اور اوپنر عمران نذیر بھی واحد ہندسے ہی میں چلتے بنے۔ لیکن یوسف یوحنا (جو بعد میں محمد یوسف بنے) اور انضمام الحق نے اننگز کو سنبھالا دیا اور پاکستان نے 168 رنز کے معمولی ہدف کے تعاقب میں بھی مقابلے کو سنسنی خیزی کی حدوں تک پہنچا دیا۔ یونس خان کی ناقابل شکست نصف سنچری کی بدولت پاکستان 49 ویں اوور میں 8 وکٹوں کے نقصان پر جاکر ہدف تک پہنچا۔ یونس خان کو فیصلہ کن اننگز کھیلنے پر مین آف دی میچ کا ایوارڈ ملا اور یوں سپر چیلنج سیریز واقعی 'سپر چیلنج' بن گئی کیونکہ اب سیریز کا فیصلہ تیسرے اور آخری ایک روزہ مقابلے میں ہونا تھا۔

جیت کا ارمان لیے پاکستان 19 جون 2002ء کو میدان میں اترا، اس بار سر پر چھت نہیں تھی، کیونکہ یہ مقابلہ ڈاک لینڈز کے بجائے برسبین میں کھیلا گیا تھا۔ پاکستان نے سیريز میں پہلا ٹاس جیتا اور پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ عمران نذیر اور سعید انور کی 94 رنز کی عمدہ افتتاحی شراکت داری نے اس فیصلے کو درست ثابت کر دکھایا۔ عمران نذیر نے جارحانہ 66 رنز بنائے جبکہ آنے والے بلے بازوں میں یوسف یوحنا 61 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ وسیم اکرم کے جارحانہ 49 رنز نے پاکستان کو آخر میں 256 رنز تک پہنچا دیا۔ وسیم اکرم کی یہ اننگز اس لیے اہم تھی کہ پاکستان 108 رنز پر تو صرف ایک وکٹ ہی سے محروم تھا لیکن 168 رنز تک اس کے 7 بلے باز آؤٹ ہوچکے تھے جن میں انضمام الحق، یونس خان، راشد لطیف، اظہر محمود اور شاہد آفریدی شامل تھے۔ آخری 10 سے زیادہ اوورز میں یوسف اور وسیم اکرم نے 88 رنز لوٹے اور پاکستان کو ایک اچھے مجموعے تک پہنچایا۔ وسیم اکرم نے صرف 32 گيندوں پر ناقابل شکست 49 رنز بنائے جس میں اپنے وقت کے مایہ ناز تیز گیندباز گلین میک گرا کو لگائے گئے دو لگاتار چھکے بھی شامل تھے۔

بظاہر تو آسٹریلیا کی بیٹنگ لائں بہت مضبوط تھی، اور 257 رنز کا ہدف اس کے لیے ناقابل عبور نہیں تھا لیکن پاکستان کا باؤلنگ اٹیک اس وقت وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر پر مشتمل تھا اور بلاشبہ دنیا کا خطرناک ترین پیس اٹیک تھا۔ اس لیے جیت پاکستان کی ہوئی۔ وسیم اکرم کے ہاتھوں میتھیو ہیڈن کی وکٹ کے ساتھ جس سلسلے کا آغاز ہوا وہ 40 اوورز میں ہی آسٹریلیا کی اننگز کے خاتمے تک جا پہنچا۔ صرف شین واٹسن ہی 44 رنز کے ساتھ کچھ مزاحمت کرسکے اور کچھ رنز شین وارن اور ایڈم گلکرسٹ نے بنائے۔ باقی کوئی آسٹریلیا کا بلے باز پاکستان کے سامنے ٹک بھی نہیں سکا۔ شعیب اختر نے صرف 25 رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کیں جن میں رکی پونٹنگ سمیت آسٹریلیا کا تقریباً پورا مڈل آرڈر شامل تھا۔ اس کارکردگی پر نہ صرف شعیب کو میچ بلکہ سیریز کا بھی بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

آسٹریلیا کے خلاف اس تاریخی فتح نے پاکستان کو عالمی درجہ بندی میں نمبر ایک تک پہنچا دیا۔ گو کہ اس وقت عالمی درجہ بندی کا نظام باقاعدہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے لاگو نہ ہوا تھا بلکہ محض چار ماہ بعد اسے آئی سی سی کی جانب سے باضابطہ طور پر اپنایا گیا، لیکن تاریخی درجہ بندی دیکھی جائے تو پاکستان دنیا کا سرفہرست ملک تھا۔ البتہ چند ماہ بعد تاریخ کی بدترین شکست نے پاکستان کو اس اعزاز سے ایسا محروم کیا کہ آج تک دوبارہ یہ مقام دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ جنوبی افریقہ میں ہونے والے 2003ء کے عالمی کپ میں پاکستان انہی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلا لیکن نتائج حاصل نہ کرسکا اور پہلے ہی مرحلے میں باہر ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی سعید انور، وسیم اکرم اور وقار یونس کے عہد کا خاتمہ ہوا اور پاکستان کرکٹ ہر گزرتے سال کے ساتھ زوال پذیر ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب آسٹریلیا پاکستان کے ہاتھوں شکست کے بعد محض چار ماہ بعد ایک مرتبہ پھر نمبر ایک مقام پر قابض ہوا اور اس مرتبہ تو ایسا چمٹا کہ عالمی ریکارڈ 52 مہینوں تک نمبر ایک پوزیشن پر قابض رہا۔ اکتوبر 2002ء سے لے کر جنوری 2007ء تک۔

یاد رہے کہ یہ وہ آخری موقع تھا جب پاکستان نے آسٹریلیا کو کسی ایک روزہ سیریز میں شکست دی ہے۔ وہ دن اور آج کا دن پاکستان آسٹریلیا کو کبھی کسی ایک روزہ سیریز میں نہیں ہرا سکا، یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی تینوں 'ہوم سیریز' میں بھی نہیں۔