پاکستان، گال سے پہلے، گال کے بعد

1 1,016

سری لنکا ایک عرصے تک دنیائے کرکٹ میں ایک نوآموز ٹیم سمجھا جاتا رہا ہے۔ خاص طور پر 1996ء کے عالمی کپ سے قبل تک ہر زبردست ریکارڈ اسی کے خلاف بنتا تھا لیکن پھر اچانک سری لنکا خاک تلے سے اٹھا اور آج ایک جانی مانی قوت ہے۔

آج پاکستان اسی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے بحر ہند کے اس جزیرے پر موجود ہے جہاں 1986ء میں پہلی بار لنکا ڈھانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اس کے باوجود پاکستان نے 2006ء تک سری لنکا میں ہونے والے 13 ٹیسٹ مقابلوں میں صرف ایک شکست کھائی اور 6 میں کامیابی سمیٹتے ہوئے متعدد بار سیریز اپنے نام کی۔ لیکن 2009 سے صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔ پاکستان گزشتہ 6 سالوں میں سری لنکا میں ہونے والے 8 ٹیسٹ مقابلوں میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پایا بلکہ پانچ مقابلوں میں اسے فیصلہ کن شکستیں بھی ہوئی ہیں۔

یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے لیے سری لنکا کو اس کے ملک میں شکست دینا اب بہت مشکل کام بن چکا ہے۔ 2009ء کے دورۂ سری لنکا میں پاکستان کو گال کے مقام پر ہونے والے ٹیسٹ میں 50 رنز سے شکست ہوئی تھی۔ ایک ایسا مقابلہ جس میں پاکستان زیادہ تر وقت غالب رہا، محض ایک اننگز کی بیٹنگ نااہلی نے پاکستان کو بدترین شکست سے ہمکنار کردیا۔ پاکستان نے محمد یوسف کی شاندار سنچری کی بدولت پہلی اننگز میں 50 رنز کی برتری حاصل کی اور سری لنکا کو دوسری اننگز میں 217 رنز پر زیر کرکے اپنے لیے صرف 168 رنز کے ہدف کا انتخاب کیا۔ لیکن رنگانا ہیراتھ کے سامنے پاکستان کی پوری ٹیم صرف 117 رنز پر ڈھیر ہوئی۔ ٹیم کے سات کھلاڑی تو دہرے ہندسے میں بھی داخل نہ ہوسکے اور یوں ایک مایوس کن شکست کپتان یونس خان کے نصیب میں لکھی گئی۔

پاکستان کو اس شکست کا اتنا صدمہ ہوا کہ دوسرے ٹیسٹ میں بھی اس غم سے باہر نہ نکل سکا۔ پہلی اننگز میں پوری ٹیم 90 رنز پر ڈھیر ہوئی اور دوسری اننگز میں قابل ذکر واپسی اور صرف ایک وکٹ پر 285 رنز تک پہنچنے کے بعد صرف 35 رنز کے اضافے سے 9 وکٹیں گنوائیں اور یوں مقابلہ طشتری میں رکھ کر سری لنکا کو پیش کردیا۔ جس نے 171 رنز کا ہدف باآسانی تین وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرکے سیریز جیت لی۔ تیسرے ٹیسٹ میں عزت بچانے کی سر توڑ کوششیں بھی محض ڈرا تک ہی پہنچ سکیں اور یوں پاکستان پہلی بار سری لنکا کی سرزمین پر کسی سیریز میں ناکام ہوا۔

ahmed-shehzad-mohammad-hafeez

صرف یہی نہیں۔ تین سال بعد، جب پاکستان کرکٹ کافی حد تک تبدیل ہوچکی تھی، تب بھی پاکستان سری لنکا کو شکست دینے میں ناکام ثابت ہوا۔ کپتان مصباح الحق کی عدم موجودگی میں ذمہ داریاں محمد حفیظ نے نبھائیں اور ان کی ٹیم پر گرفت اسی سے ظاہر ہوگئی کہ سری لنکا کے 472 رنز کے جواب میں پوری بیٹنگ لائن صرف 100 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔سری لنکا نے بعد میں پاکستان کو 510 رنز کا ہدف دیا تو گرین شرٹس کی تان 300 رنز تک پہنچ کر ٹوٹ گئی۔ یوں 209 رنز کی جیت سے میزبان نے سیریز میں ایسی برتری حاصل کی جو مصباح الحق کی واپسی اور سر توڑ کوششوں سے بھی کم نہ ہوسکی۔ پاکستان نے کولمبو اور پالی کیلے کے اگلے دونوں مقابلوں میں بہت عمدہ کارکردگی دکھائی، خاص طور پر اظہر علی اور جنید خان بہت نمایاں رہے لیکن سری لنکا کو دونوں مقابلوں میں چت نہیں کرسکا۔ یوں مسلسل دوسری سیریز میں پاکستان کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

قومی کرکٹ ٹیم نے آخری بار 2014ء میں سری لنکا کا دورہ کیا تھا۔ اور پاکستان نے شاید ہی اتنی بدترین شکستیں ماضی قریب میں کھائی ہوں، جتنی اس دورے پر ملیں۔ گال میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میں پہلی اننگز میں 451 رنز بنانے کے باوجود پاکستانی گیندباز سری لنکا کے بلے بازوں پر قابو نہ پا سکے جنہوں نے کمار سنگاکارا کی ڈبل سنچری کی بدولت 533 رنز کا مجموعہ حاصل کیا۔ مقابلہ ہاتھ سے نکلا نہ تھا لیکن پاکستان کے بلے باز دوسری اننگز میں رنگانا ہیراتھ کے ہتھے چڑھ گئے جنہوں نے 6 وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کو محض 180 رنز پر دھر لیا اور یوں ایک بے جان مقابلے میں جان ڈال دی۔ سری لنکا نے 99 رنز کا ہدف شاندار انداز میں حاصل کرکے پاکستان کے خلاف ناقابل شکست برتری حاصل کی۔ گال ٹیسٹ میں تاریخی کامیابی سے حوصلہ پاتے ہوئے کولمبو میں بھی عمدہ کارکردگی دکھائی۔ گو کہ پاکستان نے اس بار بھی آغاز اچھا لیا اور پہلی اننگز میں 12 رنز کی برتری لینے میں کامیاب ہوا لیکن مسئلہ وہی کہ فیصلہ کن اننگز میں 271 رنز کے تعاقب میں ہیراتھ آڑے آ گئی اور پوری ٹیم 165 رنز پر ہی ڈھیر ہوگئی۔ یعنی پہلی بار سری لنکا کے ہاتھوں کلین سویپ کی ہزیمت بھی اٹھانی پڑی۔

یہ آخری سیریز پاکستان کے لیے معمولی شکست نہیں تھی۔ ٹیم میں مصباح بھی تھے، یونس بھی، نوجوان و باصلاحیت اظہر علی اور اسد شفیق بھی، وکٹوں کے پیچھے سرفراز احمد بھی تو گیندبازی میں سعید اجمل، جنید خان اور وہاب ریاض بھی، اس کے باوجود ایسی بھیانک شکستیں نصیب میں آئیں۔

اب حالات کچھ بدل چکے ہیں۔ پاکستان نے اپنی آخری سیریز میں آسٹریلیا کے خلاف شاندار کامیابی حاصل کی ہے تو دوسری جانب سعید اجمل جیسے گیندباز کی خدمات سے تقریباً محروم ہی ہوچکا ہے۔ وہ اپنے نئے باؤلنگ ایکشن کے ساتھ بالکل موثر نہیں دکھائی دیے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے انہیں سری لنکا کے دورے کے لیے منتخب نہیں کیا۔ ان کی عدم موجودگی میں یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر پر ایک مرتبہ پھر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاملات سنبھالیں۔ پاکستان کو آسٹریلیا کے خلاف سیریز والی کارکردگی دہرانی ہوگی، بلے بازی میں بھی اور باؤلنگ میں بھی، تبھی سیریز کا نتیجہ پاکستان کے حق میں نکل سکتا ہے۔ بصورت دیگر عالمی درجہ بندی میں مزید نچلے مقام کے لیے تیار ہوجائیں۔