تاریخ کا بہترین ایک روزہ مقابلہ؟

1 1,157

گزشتہ 20 سال میں کرکٹ میں بہت انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ 1995ء میں تو 250 رنز بھی مقابلہ جیتنے کے لیے کافی ہوتے تھے، لیکن اب ٹیموں کو 400 رنز بنانے کے بعد بھی کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں تعاقب کرنے والے یہاں تک بھی نہ پہنچ جائیں۔ کرکٹ کے مزاج اور انداز میں ان دو دہائیوں میں بڑا انقلاب آیا ہے لیکن ایک چیز جو آج بھی اپنی جگہ قائم و دائم ہے، وہ ہے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کی کارکردگی۔ جس طرح دونوں ٹیمیں 20 سال پہلے بہترین شمار ہوتی تھیں، اسی طرح آج بھی یہ دونوں دنیا بھر کی ٹیموں کے لیے سخت ترین حریف ہیں۔ جب بھی ان دونوں کا مقابلہ سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو تاریخ کے بہترین مقابلوں میں شمار ہوجاتا ہے۔ 1999ء کا عالمی کپ سیمی فائنل اس کی روشن مثال ہے۔ آج سے ٹھیک 16 سال پہلے آج ہی کے دن یعنی 17 جون کو برمنگھم میں دنیا نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھا۔

پاکستان نیوزی لینڈ کو زیر کرتا ہوا پہلے ہی فائنل تک پہنچ چکا تھا جب ملی جلی کارکردگی دکھانے والے آسٹریلیا کاسامنا دوسرے سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ سے ہوا۔ تمام ہی اہم ٹیموں کے چھکے چھڑانے والے جنوبی افریقہ نے صرف 68 رنز پر آسٹریلیا کو اپنے چاروں اہم بلے بازوں مارک واہ، رکی پونٹنگ، ڈیرن لیمن اور ایڈم گلکرسٹ سے محروم کردیا تھا۔ یہاں مائیکل بیون نے وہی کردار ادا کیا، جو چار سال قبل 1996ء کے عالمی کپ کوارٹر فائنل میں تھا، اہم موقع پر مرد بحران کا کردار۔ انہوں نے اسٹیو واہ کے ساتھ پانچویں وکٹ پر 90 قیمتی رنز کا اضافہ کیا۔ اسٹیو واہ کی نصف سنچری اننگز کے بعد آسٹریلیا مائیکل بیون کی 65 رنز کی عمدہ اننگز کی بدولت 213 رنز تک پہنچا۔

یہ رنز ہرگز جنوبی افریقہ کو روکنے کے لیے کافی نہیں دکھائی دیتے تھے۔ خاص طور پر جب پروٹیز اوپنر ہرشل گبز اور گیری کرسٹن پہلی ہی وکٹ پر مجموعے کو 48 رنز تک لے گئے تو جنوبی افریقہ کے لیے معاملہ آسان ترین دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں شین وارن آئے، اور چھا گئے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا کہ وہ بڑے مقابلوں کے بڑے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے دونوں اوپنرز کو بولڈ کرنے کے بعد کپتان ہنسی کرونیے کی قیمتی وکٹ بھی حاصل کرلی۔ صرف یہی نہیں ڈیرن کلینن کے رن آؤٹ نے جنوبی افریقہ کو مزید پچھلے قدموں پر دھکیل دیا۔ صرف 13 رنز کے اضافے سے چار وکٹیں گرنے کے بعد مقابلہ برابری کی سطح پر کھڑا ہوگیا تھا۔

world-cup-1999-aus-sa-semi-final

جونٹی رہوڈز کے 43 اور ژاک کیلس کی نصف سنچری نے معاملے کو آخری 10 اوورز میں درکار 68 رنز تک پہنچا دیا۔ یہاں ایک مرتبہ پھر وارن آسٹریلیا کو مقابلے میں واپس لائے۔ انہوں نے ژاک کیلس کی قیمتی وکٹ حاصل کی اور شان پولاک کی اننگز بھی جلد ختم ہونے کے بعد تمام تر ذمہ داری لانس کلوزنر اور مارک باؤچر کے کاندھوں پر آ گئی۔

میک گرا نے دن کا قیمتی ترین یعنی 49 واں اوور پھینکا۔ جس میں انہوں نے مارک باؤچر کو کلین بولڈ کیا اور پھر اسٹیو ایلورتھی کے رن آؤٹ کیا۔ یوں جنوبی افریقہ کے لیے معاملہ 'آخری گولی اور آخری سپاہی' کا ہوگیا۔ اسے ایک وکٹ کے ساتھ آخری اوور میں 9 رنز کی ضرورت تھی اور کریز پر 'جنگجو' لانس کلوزنر موجود تھے۔ انہوں نے پہلی دو گیندوں پر ہی ڈیمین فلیمنگ کو دو کرارے چوکے رسید کرکے مقابلہ برابر کردیا۔ اب چار گیندوں پر صرف ایک رن کی ضرورت تھی لیکن نجانے کیوں دوسرے کنارے پر کھڑے ایلن ڈونلڈ کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے۔ پہلے وہ تیسری گیند پر غیر ضروری رن لینے کی کوشش میں آؤٹ ہونے سے بال بال بچے، لیکن جب چوتھی گیند پر انہیں دوڑنے کی ضرورت تھی تو کلوزنر کی پکار پر بروقت لبیک نہ کہہ سکے اور کچھ دیر بعد چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ کلوزنر اور ڈونلڈ کے شکست خوردہ سر جھکے ہوئے ہیں جبکہ آسٹریلیا کے کھلاڑی دیوانہ وار جشن منا رہے ہیں۔ گو کہ انہیں علم نہ تھا کہ مقابلہ ٹائی ہونے کی وجہ سے وہ فائنل تک پہنچ گئے ہیں لیکن ایک یقینی شکست کا دھارا موڑنے کے بعد خوشی ان کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ آسٹریلیا فائنل میں پہنچ چکا تھا جہاں اس کا مقابلہ پاکستان سے ہونا تھا۔ شین وارن نے بڑے مقابلے کا کھلاڑی ہونے کا ایک اور ثبوت لارڈز کے میدان میں دینا تھا اور پاکستان سے گروپ مرحلے کی شکست کا بدلہ بھی لینا تھا۔

آسٹریلیا کی ضرب کتنی کاری تھی، اس کا اندازہ لگانے کے لیے غالباً یہی کافی ہے کہ جنوبی افریقہ کبھی عالمی کپ کے سیمی فائنل سے آگے نہیں جاسکا۔ یہاں تک کہ 2015ء میں بھی اسے نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

اس مقابلے کو کئی کرکٹ ماہرین 'تاریخ کے بہترین ایک روزہ مقابلوں میں سے ایک' قرار دیتے ہیں اور بلاشبہ یہ مقابلہ عظمت کے تمام پیمانوں پر پورا بھی اترتا ہے۔