خراج تحسین، گال کے ’گم گشتہ‘ ہیرو اسد شفیق کو

2 1,082

گال کے خوبصورت میدان کے پس منظر کے ساتھ پاکستان کو فتح کا جشن مناتے ہوئے دیکھے زمانہ گزر گیا۔ جب 2000ء میں سمندر کے کنارے اور ایک تاریخی قلعے کے قریب واقع اس میدان پر پاکستان نے اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا تھا تو فتح نے اس کے قدم چومے تھے، لیکن وہ دن اور آج کا دن، پاکستان کو یہاں دوبارہ جیتنے میں 15 سال لگ گئے۔ نہ صرف گال بلکہ یہ سری لنکا کی سرزمین پر ہی پاکستان کی 9 سال بعد کسی ٹیسٹ میں پہلی کامیابی ہے۔ "جیت کے کئی وارث ہوتے ہیں"، اس لیے اس فتح کے بعد بھی کئی نام ایسے ہیں، جو مرکزی کردار کی حیثیت سے ذہن میں آتے ہیں۔ یاسر شاہ کی دوسری اننگز میں تباہ کن باؤلنگ، جس کی بدولت وہ سری لنکا میں ایک اننگز میں 6 یا زیادہ وکٹیں لینے والے پہلے پاکستانی اسپن گیندباز بنے۔ پھر سرفراز احمد کے برق رفتار 96 رنز کون بھلا سکتا ہے کہ جس نے میچ کا نقشہ ہی تبدیل کردیا ہے، اور بعد میں وکٹ کیپر کو میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزآز بھی دیا۔ ساتھ ہی ذوالفقار بابر کی حیران کن اننگز،جس میں انہوں نے اپنی پہلی ٹیسٹ نصف سنچری بنائی اور نویں وکٹ پر سنچری شراکت داری کے ذریعے پاکستان کو بالادست مقام تک پہنچایا۔

لیکن اس میچ کے حقیقی لیکن 'گم گشتہ'ہیرو تھے اسد شفیق، جو کسی بھی پاکستانی بلے باز سے زیادہ حریف گیندبازوں کے سامنے ڈٹے رہے اور اپنی ساتویں ٹیسٹ سنچری بنائی۔ یہ کوئی ایسا سنگ میل تو نہیں ہے، یا اگر عام الفاظ میں کہیں تو سنچریوں کا "راؤنڈ فگر" نہیں کہ ہم اسے موضوعِ بحث بنائیں۔ لیکن اسد کی 253 گیندوں پر 131 رنز کی اننگز کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اس تحریر میں 7 سنچریوں کے سنگِ میل کو موضوع بنایا ہے اور جانیں گے کہ پاکستان کے کون سے بلے باز ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے اس منزل کو حاصل کیا۔

اسد شفیق – 56 اننگز

2010ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کرنے والے اسد شفیق نے پہلی بار ٹیسٹ سنچری بنگلہ دیش کے خلاف بنائی۔ 2011ء میں 104 رنز کی اننگز کھیل کر انہوں نے جس سفر کا آغاز کیا، وہ آج چار سال بعد 7 کے ہندسے تک جا پہنچا ہے۔ 2012ء میں سری لنکا کے خلاف دوسری ٹیسٹ سنچری بنانے کے بعد اسد شفیق نے اس وقت اعتماد جیتا، جب انہوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف جنوبی افریقہ میں دو سنچریاں بنائیں۔ کیپ ٹاؤن کے میدان پر ڈیل اسٹین، ویرنن فلینڈر اور مورنے مورکل جیسے تیز گیندبازوں کے مقابلے انہوں نے 111 رنز کی اننگز کھیلی، وہ بھی اس وقت جب پاکستان صرف 33 رنز پر چار وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا۔ اب 2015ء اسد شفیق کے لیے بہترین سال ثابت ہو رہا ہے جس میں وہ اب تک تین مرتبہ سنچریاں بنا چکے ہیں۔

محمد یوسف – 55 اننگز

سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ میں ہر گز ہر گز محمد یوسف کا پرستار نہیں ہوں۔ اس کی وجہ؟ 2007ء میں آئی سی سی کی جانب سے سال کے بہترین ٹیسٹ کھلاڑی کا اعزاز ملنے کے بعد ان کی تقریر۔

بہرحال، یوسف نے 1998ء میں جنوبی افریقہ کے دورۂ پاکستان میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا اور اسی سال زمبابوے کے خلاف لاہور میں 120 رنز کے ذریعے ٹیسٹ سنچری کلب میں قدم رکھا۔ انہوں نے چند ایک نہیں، بلکہ 24 ٹیسٹ سنچریاں بنائیں جس میں 2000ء میں ویسٹ انڈیز اور انگلستان کے خلاف چار اور 2001ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف پہلی ڈبل سنچری بنانے کے بعد انہوں نے اسی سال ملتان میں اپنی ساتویں ٹیسٹ سنچری بنائی۔ 2009ء میں سری لنکا کے خلاف گال کے میدان پر محمد یوسف نے اپنے کیریئر کی 24 ویں اور آخری سنچری بنائی اور اس میدان پر یہ پاکستان کی پہلی اور آخری کامیابی تھی۔ یہاں تک کہ اسد شفیق کی اس 'تازہ بہ تازہ' اننگز نے پاکستان کو یہاں کامیابی سے نوازا۔

محسن خان – 54 اننگز

ایک خوبصورت اور ساتھ ہی دلکش انداز سے کھیلنے والے بلے باز، محسن حسن خان۔ 1978ء میں کیریئر کا آغاز کیا لیکن چار سال تک ایک مرتبہ پھر تہرے ہندسے تک نہ پہنچ سکے، یہاں تک کہ 1982ء میں سری لنکا کے خلاف لاہور میں اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری بنائی۔ اسی سال کیریئر کے نقطہ عروج پر پہنچے۔ انگلستان کے خلاف لارڈز میں اپنی واحد ڈبل سنچری بنائی اور 'لارڈز کے ہیرو' سمجھے جانے لگے۔ اسی سال دو مزید سنچری اننگز تراشیں، اکتوبر میں آسٹریلیا اور دسمبر میں بھارت کے خلاف، دونوں مرتبہ مقام لاہور تھا۔ 1983ء میں محسن خان ایک مرتبہ پھر ترنگ میں دکھائی دیے جب انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف آسٹریلیا میں دو سنچریاں بنائیں۔ ایک ایڈیلیڈ میں اور دوسری ملبورن کے مقام پر۔ انہوں نے اپنی ساتویں اور آخری سنچری 1984ء میں انگلستان کے خلاف اپنے پسندیدہ میدان لاہور میں اسکور کی۔ محسن نے اپنا آخری ٹیسٹ 1986ء میں کھیلا اور محض 8 سال کرکٹ میں خدمات انجام دینے کے بعد اسے خیرباد کہہ گئے۔

اعجاز احمد – 52 اننگز

اعجاز احمد، پاکستان میں کوئی انہیں خطرناک کھلاڑی سمجھتا ہو یا نہیں، لیکن کرکٹ تاریخ کی کامیاب ترین ٹیم آسٹریلیا ضرور اعجاز کو اچھی طرح پہچانتی ہے، جس کے خلاف انہوں نے اپنے کیریئر کی 12 میں سے 6 سنچریاں بنائیں۔ 1987ء میں بھارت کے خلاف مدراس میں پہلا ٹیسٹ کھیلنے کے بعد اعجاز نے اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری 1988ء میں آسٹریلیا ہی کے خلاف بنائی۔ اسی سال انہوں نے دورۂ آسٹریلیا میں بھی تہرے ہندسے کا سنگ میل عبور کیا، وہ بھی ملبورن کے تاریخی میدان پر۔ پھر پانچ سال کا طویل وقفہ آیا، پھر اعجاز نے تیسری ٹیسٹ سنچری بنائی تو بھی نشانہ آسٹریلیا ہی تھا اور مقام سڈنی۔ 1996ء میں اعجاز نے انگلستان کے خلاف ہیڈنگلے اور نیوزی لینڈ کےخلاف راولپنڈی میں سنچریاں اسکور کیں۔ اپریل 1997ء میں اعجاز نے اپنی ساتویں ایک روزہ سنچری 52 ویں اننگز میں بنائی۔ 12 ٹیسٹ سنچریوں میں ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ 1999ء کے فائنل میں بنائی گئی 211 رنز کی اننگز بھی شامل تھی۔

جاوید میانداد – 50 اننگز

کرکٹ مؤرخین کی نظر میں سرزمینِ پاکستان پر جنم لینے والا سب سے بہترین بلے باز، جاوید میانداد۔ 1976ء میں اپنے پہلے ہی ٹیسٹ،بلکہ پہلی ہی اننگز، میں 163 رنز کی زبردست اننگز کھیلی اور یوں دنیائے کرکٹ میں ایک دھماکے دار 'انٹری' دی۔ یہی نہیں بلکہ نیوزی لینڈ کے خلاف اسی سیریز میں انہوں نے اپنی پہلی ڈبل سنچری بھی بنائی۔ 1978ء میں جاوید میانداد نے چار مرتبہ یہ تہرا ہندسہ عبور کیا، پہلے بھارت کے خلاف فیصل آباد میں 154 اور کراچی میں 100 رنز، پھر نیوزی لینڈ کےخلاف 160 اور آسٹریلیا کے مقابلے میں 129 رنز بناکر۔ ان کی ساتویں ٹیسٹ سنچری 50 ویں اننگز میں ظہور پذیرہوئی۔ فیصل آباد کے اقبام اسٹیڈیم میں جاوید میانداد نے آسٹریلیا کے خلاف 106 رنز بنائے۔

جاوید میانداد نے مجموعی طور پر 23 ٹیسٹ سنچریاں بنائیں، جن میں سب سے بڑی اور سب سے مشہور، اور سب سے متنازع بھی، بھارت کے خلاف 280 رنز کی وہ ناٹ آؤٹ اننگز تھی جو نیاز اسٹیڈیم، حیدرآباد میں کھیلی گئی تھی۔ جب میانداد ٹرپل سنچری سے صرف 20 رنز کے فاصلے پر تھے تو کپتان عمران خان نے اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کیا، اور یوں میانداد کئی ریکارڈز توڑنے کے باوجود کبھی ٹرپل سنچری نہ بنا سکے۔ جاوید میانداد نے پاکستان کی جانب سے کل 8832 رنز بنائے، جو آج بھی ٹیسٹ کرکٹ میں کسی بھی پاکستانی بلے باز کے سب سے زیادہ رنز ہیں۔

شعیب محمد – 48 اننگز

'مچھلی کے جائے کو تیرنا کون سکھائے؟'، جس کی رگوں میں حنیف محمد جیسے عظیم بلے باز کا خون دوڑ رہا ہو،اسے بھلا کرکٹ سکھانے کی ضرورت تھی کیا؟ لیکن شعیب محمد پاکستان کی تاریخ کے بدقسمت ترین بلے بازوں میں سے ایک ہیں، جنہیں وہ مقام نہیں مل سکا، جس کے وہ حقدار تھے۔ بہرحال، شعیب نے اپنے کیریئر کا آغاز 1983ء میں کیا تھا لیکن پہلی ٹیسٹ سنچری 1987ء میں بنائی جب انہوں نے روایتی حریف بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ دو سال بعد 1989ء میں شعیب محمد نے دورۂ نیوزی لینڈ میں دو بار سنچری اسکور کی اور اسی سال بھارت کے خلاف 203 رنز کی صورت میں اپنی بہترین اننگز کھیلی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 203 رنز کا ہندسہ شعیب محمد نے ایک نہیں بلکہ دو بار حاصل کیا۔ 1990ء میں انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف آبائی شہر کراچی میں بھی 203 رنز ہی بنائے۔ یہ دونوں اننگز ناٹ آؤٹ تھیں، جس میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہونے والا مقابلہ پاکستان نے باآسانی جیتاجبکہ بھارت کے خلاف ہونے والا ٹیسٹ بغیر کسی نتیجے تک پہنچے تمام ہوا۔ شعیب نے اپنی 48 ویں اننگز میں ساتویں ٹیسٹ سنچری بنائی اور یوں 7 سنچری کے سنگ میل تک سب سے تیزی سے پہنچنے والے پاکستانی بلے باز ہیں۔ یہ اکتوبر 1990ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف فیصل آباد ٹیسٹ تھا جس میںانہوں نے 142 رنز بنائے تھے۔ 45 ٹیسٹ مقابلوں میں 44 سے زیادہ کے اوسط کے ساتھ 2705 رنز بنانے والے شعیب ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوگئے لیکن اب تجزیہ کار اور بورڈ عہدیدار کی حیثیت سے سامنے آتے رہتے ہیں۔