[آج کا دن] تاریخ کا بہترین ٹیسٹ مقابلہ

3 1,571

1987ء کا پاک-بھارت بنگلور ٹیسٹ بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا، کم از کم ہماری نوجوان نسل کو تو اس بارے میں علم ہی نہیں بلکہ بہت سارے تو ایسے ہوں گے جنہیں 1994ء میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلا گیا کراچی ٹیسٹ اور 1999ء میں پاک-بھارت چنئی ٹیسٹ بھی یاد نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ 1986ء کا بھارت-آسٹریلیا مدراس ٹیسٹ اور 1993ء میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ایڈیلیڈ میں کھیلے گئے مقابلے بھی بہت کم لوگوں کی یادوں میں موجود ہیں۔ یہ تاریخ کے بہترین مقابلے تھے لیکن ہم میں سے بہت سارے شائقین کرکٹ کو 7 اگست 2005ء کا دن ضرور یاد ہوگا جب آسٹریلیا اور انگلستان کے مابین ایک ایسا ٹیسٹ اپنے اختتام کو پہنچا جسے تاریخ کے یادگار اور بہترین مقابلوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

2005ء کی ایشیز اس لیے تو یادگار تھی ہی کہ انگلستان نے 18 سال کے طویل عرصے کے بعد یہ تاریخی سیریز جیتی لیکن اس میں چند بہت ہی سنسنی خیز مقابلے بھی کھیلے گئے جن میں سب سے آگے سیریز کا دوسرا ٹیسٹ ہے، جو ایجبسٹن، برمنگھم میں کھیلا گیا۔ پہلے مقابلے میں آسٹریلیا کی کامیابی کے بعد انگلستان ایک-صفر سے خسارے میں تھا۔ برمنگھم میں آسٹریلیا کی دعوت پر اسے بلے بازی کے لیے میدان میں اترنا پڑا جہاں مارکوس ٹریسکوتھک کے 90 اور کیون پیٹرسن اور اینڈریو فلنٹوف کی نمایاں نصف سنچریوں کی بدولت اس نے 407 رنز بنائے۔

یہ انگلستان کا بہت بڑا کارنامہ تھا کیونکہ کئی ماہرین کی نظر میں ٹاس جیت کر پہلے گیندبازی کرنا بہترین فیصلہ تھا اور ان کی نظر میں پہلے باؤلنگ کرنے والی ٹیم ہی ٹیسٹ جیتے گی۔ تاریخ بھی یہی بتاتی تھی۔ یہاں 1991ء سے 2005ء تک ہونےوالے 13 میں سے 12 ٹیسٹ مقابلوں میں پہلے گیندبازی کرنے والا ہی فاتح قرار پایا تھا لیکن انگلستان نے 407 رنز کا بھاری مجموعہ اکٹھا کرکے اس مفروضے کو غلط ثابت کردیا۔ وہ بھی اس طرح کہ 1938ء کے بعد آسٹریلیا کے خلاف پہلے ہی دن 400 رنز بنانے والی پہلی ٹیم بن گیا۔ آسٹریلیا کو گلین میک گرا کی کمی شدت کے ساتھ محسوس ہوئی جو میچ کے آغاز سے چند لمحے قبل زخمی ہوگئے تھے۔ آسٹریلیا ایسا بدحواس ہوا کہ پہلی ہی وکٹ پر انگلستان 112 رنز کی شراکت داری جوڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ کھانے کے وقفے سے قبل اور فوراً بعد آسٹریلیا نے پے در پے وکٹیں حاصل کرکے مقابلے میں واپسی کی۔ لیکن یہاں محض اپنا دوسرا ٹیسٹ کھیلنے والے کیون پیٹرسن نے اپنا کمال دکھایا اور اینڈریو فلنٹوف کے ساتھ مل کر صرف 105 گیندوں پر 103 رنز کی عمدہ شراکت داری قائم کی۔ پیٹرسن نے 71 رنز بنائے جبکہ فلنٹوف 68 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔

انگلستان بہترین بلے بازی کے بعد مقابلے میں غالب مقام پر آ چکا تھا اور جو کسر رہ گئی تھی وہ دوسرے اوور کی پہلی گیند پر میتھیو ہیڈن کے گولڈن ڈک سے پوری ہوگئی۔ رکی پونٹنگ اور جسٹن لینگر نے 88 رنزکی شراکت داری کے ذریعے اننگز کو بچایا لیکن ان دونوں کے بعد کوئی بلے باز نصف سنچری تک نہ بنا سکا اور آسٹریلیا کی پہلی اننگز 308 رنز پر تمام ہوگئی۔ لینگر 82 جبکہ پونٹنگ نے 61 رنز بنائے۔ ایڈم گلکرسٹ نے 49 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی جبکہ مائیکل کلارک کا حصہ 40 رنز کا تھا۔

اب انگلستان میچ پر مکمل طور پر حاوی تھااسے پہلی اننگز میں 99 رنز کی واضح برتری حاصل تھی لیکن دوسری اننگز میں وہ بریٹ لی اور شین وارن کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے نہ چل سکا۔ وہ بریٹ لی جنہیں پہلی اننگز میں انگلش بلے بازوں نے 17 اوورز میں 111 رنز مارے تھے، مارکوس ٹریسکوتھک اور کپتان مائیکل وان سمیت چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے میں کامیاب رہے جبکہ اسپن جادوگر شین وارن نے باقی کی 6 وکٹوں پر ہاتھ صاف کیا۔ انگلستان کی دوسری اننگز محض 182 رنز پر تمام ہوگئی۔

75 رنز پر 6 وکٹیں گرنے کے بعد انگلستان کو اینڈریو فلنٹوف نے مکمل تباہی سے بچایا جن کی 86 گیندوں پر 73رنز کی اننگز بعد میں فیصلہ کن ثابت ہوئی۔

andrew-flintoff

اب آسٹریلیا تھا اور 282 رنز کا ہدف تھا۔ اگر پہلی اننگز جیسی کارکردگی بھی دہرا لیتا تو ایک شاندار فتح یقینی تھی لیکن میچ کی چوتھی اننگز میں کھیلنا مشکل ہوتا ہے۔ بہرحال، آسٹریلیا نے آغاز بہت عمدہ لیا۔ ابتدائی 12 اوورز میں ہی 47 رنز بن چکے تھے جب اینڈریو فلنٹوف کو طلب کیا گیا۔ بلاشبہ انہوں نے اپنے کیریئر کی یادگار ترین گیندبازی کی۔ دوسری گیند پر جسٹن لینگر کو کلین بولڈ کرنے کے بعد انہوں نے حریف کپتان رکی پونٹنگ کا سخت امتحان لیا۔ پونٹنگ کے خلاف تیسری گیند پر ایل بی ڈبلیو کی ایک زوردار اپیل مسترد ہوئی، چوتھی بلے کا کنارہ لیتی ہوئی سلپ سے کچھ فاصلے پر گری، پانچویں پر ایک اور فلک شگاف اپیل ہوئی لیکن امپائر نے آؤٹ نہیں دیا، چھٹی گیند نو-بال ہوگئی اور ساتویں اور آخری گیند پر پونٹنگ وکٹوں کے پیچھے کیچ دے گئے۔ میدان میں کان پڑتی آواز سنائی نہیں دی جب فلنٹوف نے تماشائیوں نے داد کی وصولی کے لیے دونوں ہاتھ فضاء میں بلند کیے اور پونٹنگ سر جھکائے میدان سے باہر چلے گئے۔

اس اوور نے پورے میچ کا نقشہ ہی بدل دیا۔ جب تیسرے دن کا کھیل ختم ہوا تو آسٹریلیا ہدف سے 107 رنز کے فاصلے پر تھا اور اس کی محض دو وکٹیں باقی تھیں۔ انگلستان کی گرفت مضبوط تھی لیکن آسٹریلیا اتنی آسانی سے ہتھیار نہیں ڈالتا۔ چوتھے روز صبح شین وارن اور بریٹ لی نے زبردست مزاحمت کی اور 45 رنز کا اضافہ کرکے مجموعے کو 220 رنز تک پہنچا دیا۔ فلنٹوف کی ایک فل گیند پر وارن ہٹ وکٹ ہوئے اور اس کے ساتھ ہی آسٹریلیا کی اننگز محض "ایک گیند کی مار" رہ گئی۔ بریٹ لی دوسرے کنارے پر جمے ہوئے تھے اور آنے والے بلے باز مائیکل کاسپرووچ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ دونوں انگلش گیندبازوں کی جارحانہ باؤلنگ کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ جب آسٹریلیا ہدف سے 15 رنز کے فاصلے پر تھا تو سائمن جونز نے کاسپرووچ کا کیچ ضائع کردیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قسمت بھی آسٹریلیا کے ساتھ ہے۔ جب ہدف صرف 3 رنز کے فاصلے پر رہ گیا تو ہارمیسن کی ایک اٹھتی ہوئی گیند کاسپرووچ کے دستانوں کو چھوتی ہوئی وکٹوں کے پیچھے گئی جہاں وکٹ کیپر گیرنٹ جونز کے ایک عمدہ کیچ نے مقابلے کا فیصلہ کردیا۔ انگلستان صرف 2 رنز سے مقابلہ جیت گیا اور آسٹریلیا منہ تکتا رہ گیا۔

اس شکست کا غم آسٹریلیا کے پورے دستے کو محسوس ہوا ہوگا لیکن میدان میں موجود بریٹ لی نڈھال ہوگئے۔ ان کی 43 رنز کی اننگزرائیگاں چلی گئی۔فتح کے جشن سے سرشار انگلستان کے کھلاڑیوں میں سے اینڈریو فلنٹوف کو اس غم کا احساس تھا، وہ آئے اور بریٹ لی کو دلاسہ دیا۔ ان کے اس عمل کو 'اسپورٹس مین شپ' کی بہترین مثال سمجھا گیا۔ آئیے آپ بھی 2015ء کی ایشیز سیریز کے ساتھ ساتھ ان یادگار تاریخی لمحات سے لطف اندوز ہوں۔