مصباح الحق دنیا کے نمبر ایک ٹیسٹ کپتان قرار

0 1,039

اردو میں کہتے ہیں "گھر کی مرغی، دال برابر"، یعنی جو چیز دستیاب ہو اس کی قدر نہیں ہوتی۔ کچھ یہی معاملہ پاکستان کے ٹیسٹ کپتان مصباح الحق ہے۔ ’’ٹک ٹک‘‘ کے خطاب سے لے کر شکست خوردہ کھلاڑی کے طعنے تک ایک طویل داستان ہے لیکن جو کرکٹ کے 'برساتی مینڈک' نہیں ہیں اور کھیل پر حقیقی نظر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں مصباح کی اہمیت، حیثیت اور مقام کیا ہے۔

برطانیہ کے معروف روزنامے 'ٹیلی گراف' کے کالم نگار جوناتھن لیو نے عہدِ رواں کے 10 بہترین ٹیسٹ کپتانوں کا انتخاب کیا ہے۔ ویسے ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک ہی 10 ہیں تو یہ سمجھ لیں کہ یہ کپتانوں کی درجہ بندی ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب انگلستان نے آسٹریلیا کو ابتدائی چار مقابلوں میں ہی ایشیز سیریز ہرا دی ہے، انہوں نے ایلسٹر کک کی شان میں قصیدے نہیں پڑھے بلکہ مصباح الحق کو آج کا نمبر ایک ٹیسٹ کپتان قرار دے دیا ہے۔ "طویل محنت اور ہر مشکل وقت کا سامنا کرنے کے بعد پاکستان کو عالمی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر لانے والے مصباح دنیا کے بہترین کپتان ہیں۔"

مصباح الحق نے 2010ء میں اس وقت پاکستان کی قیادت سنبھالی جب ٹیم سخت مشکلات کا شکار تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کرکٹ کو عروج تک پہنچانے کی بات تو درکنار اس کی عالمی ساکھ کو ہی لالے پڑے ہوئے تھے۔ ٹیم کے تین مرکزی کھلاڑی اسپاٹ فکسنگ میں دھر لیے گئے۔ اس عالم میں مصباح نے مایوسی کو اپنی کمزوری کے بجائے طاقت بنایا اور یہی وہ قوت تھی جس نے پاکستان کو ایک مضبوط ٹیم بنانے کا جذبہ فراہم کیا۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے آسٹریلیا اور انگلینڈ کو کلین سویپ شکستیں دی، سری لنکا کو سری لنکا میں ہرایا اور ٹیسٹ میں تیسرے نمبر تک آ گیا۔ یہ سب ایسے حالات میں ہوا جب ٹیم کو اپنے ملک کے میدانوں پر ایک مقابلہ بھی کھیلنے کو نہیں ملا۔ مصباح نے صرف ٹیم کی کارکردگی کو ہی بہتر نہیں بنایا بلکہ خود بھی 50 سے زیادہ کے اوسط کے ساتھ بہترین بلے بازی دکھائی بلکہ اس دوران تیز ترین سنچری اور تیز ترین نصف سنچری کے عالمی ریکارڈز بھی قائم کیے۔

جوناتھن لیو نے ٹیسٹ کرکٹ کے 10 بہترین کپتانوں کے حوالے سے اپنی رائے کچھ ان الفاظ میں دی ہے:

(2 – برینڈن میک کولم– نیوزی لینڈ)

کوچ مائیک ہیسن کے ساتھ ساتھ جارح مزاج کپتان برینڈن میک کولم نے بھی نیوزی لینڈ میں ایک نئی روح پھونکی ہے۔ محض 45 رنز پر آل-آؤٹ ہونے کی شرمناک تاریخ رکھنے والے نیوزی لینڈ کو عالمی کپ کے فائنل تک بھی پہنجایا۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست کہ کبھی کبھی جارح مزاجی کام نہیں آتی لیکن ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ نیوزی لینڈ سب سے زیادہ پسند کی جانے والی ٹیموں میں سے ایک ہے اور شاید اس کی وجہ یہی جارح مزاجی ہے۔ میک کولم نے ٹیم کی کارکردگی کو جس اعلیٰ مقام تک پہنچا دیا ہے یقیناً یہ کارکردگی اگلے کپتان کے لیے چیلنج کا درجہ رکھے گی۔

(3 - اینجلو میتھیوز –سری لنکا)

انگلینڈ کے کپتان ایلسٹر کک کی طرح اینجلو میتھیوز نے بھی بطور کپتان اپنی کارکردگی کو بتدریج بہتر کیا ہے۔ محض 25 سال کی عمر میں کپتان بننے والے میتھیوز اپنی کارکردگی کی بنیاد پر نہ صرف دوسرے کھلاڑیوں کے لیے مثال بن رہے ہیں بلکہ جیت کی اُمنگ بھی پیدا کررہے ہیں۔ وہ درحقیقت ایک لیڈر ہیں اور اگر وہ نہ ہوتے تو شاید سری لنکا کی ٹٰیم اندرونی اختلاف کی وجہ سے بکھر جاتی۔

(4 – مشفق الرحیم – بنگلہ دیش)

یہ ماضی کی بات ہے جب بنگلہ دیش کی ٹیم میں میدان میں آنے سے پہلے ہی شکست خوردہ ہوتی تھی، مایوسی کھلاڑیوں کے چہروں پر عیاں ہوتی تھی مگر باحوصلہ اور ذہین وکٹ کیپر مشفق الرحیم کے زیر سایہ بنگلہ دیش نے لڑنے کا جذبہ ضرور حاصل کرلیا ہے، چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو۔ بنگلہ دیش عالمی کرکٹ میں تیزی سے بہتر ہوتی ٹیموں میں شامل ہوگیا ہے اور پاکستان، بھارت اور جنوبی افریقہ کے حالیہ دورۂ بنگلہ دیش کے نتائج دیکھیں تو باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ اب بنگلہ دیش کو کم از کم اُن کے میدانوں میں ہرانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔

(5 - ایلسٹر کک – انگلستان)

اگر ایلسٹر کک کے بطور کپتان کیرئیر کو دیکھا جائے تو یقینی طور پر وہ خود کو اچھا کپتان ثابت کررہے ہیں اور حالیہ ایشیز سیریز کی کامیابیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ بات ابھی سے کہی جارہی ہے کہ جو روٹ کک کے بعد ممکنہ کپتان ہوسکتے ہیں لیکن اگر انگلستان کو ٹیسٹ کرکٹ میں کامیابی کے سفر کو جاری رکھنا ہے تو اس وقت اسے کک کی شدید ضرورت ہے۔

(6 - ہاشم آملہ – جنوبی افریقہ)

بلے بازی میں دن دوگنی رات چوگنی کامیابی حاصل کرنے کے بعد ہاشم آملہ کپتانی کے شعبے میں بھی فتوحات سمیٹ رہے ہیں اور گریم اسمتھ جیسے کامیاب کپتان کی جگہ لینے کے اہل ثابت ہورہے ہیں۔ اگر جنوبی افریقہ کے مخصوص حالات کو دیکھا جائے، جہاں سیاست اپنے عروج پر ہے، وہاں یقینی طور پر یہ ایک مشکل کام ہے۔ اچھے آغاز کے بعد ہاشم آملہ کو مستقبل میں بہت مواقع میسر ہوں گے، جن میں سب سے قریب دورۂ بھارت ہے۔

(7 - ویراٹ کوہلی – بھارت)

کوہلی پہلے کھلاڑی ہیں جنہوں نے بطور کپتان ابتدائی تین تیسٹ میچوں میں سنچریاں بنائیں۔ لیکن ان کی قیادت بارے میں ابھی سے کوئی رائے قائم کرنا جلد بازی ہوگی کیونکہ اب تک کوہلی نے کپتان کی حیثیت سے ایک ٹیسٹ سیریز بھی مکمل طور پر نہیں کھیلی۔ لیکن اُن کا آغاز یقیناًشاندار ہے اور سری لنکا کے خلاف جاری ٹیسٹ میں 2 تیز باؤلر اور 3 اسپنر کھلا کر نہ صرف خود کو جرات مند کپتان کہلوانا چاہتے ہیں، بلکہ کامیابی کی بلندیوں کو بھی چھونے کے خواہشمند دکھائی دیتے ہیں۔

(8 - مائیکل کلارک – آسٹریلیا)

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مائیکل کلارک ایک اچھے کپتان ہیں، لیکن کیرئیر کے آخری ایام میں اُن کی کمزوریاں نمایاں ہوگئی ہیں۔ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ٹٰیم کے حوصلے بلند کرنے کی لگن نے 2012ء میں اُنہیں واقعی بہت کامیابیاں دیں مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ صرف کامیابی نہیں چاہتے بلکہ پرستش کے بھی شوقین ہیں۔ تمام تر عروج و زوال کے باوجود کلارک اِس کے حقدار ہیں کہ اُن کو کرکٹ سے شاندار طریقے سے رخصت کیا جائے۔

(9 – دنیش رامدین – ویسٹ انڈیز)

دنیش رامدین کسی طرح بھی ایک اچھے قائد نہیں لگتے جو ایک اچھی ٹیم میں جیت کی امنگ پیدا کرسکیں۔ اِس وقت تو رامدین کی کارکردگی اُس کی معیار کی نہیں جس کو سامنے رکھتے ہوئے وہ ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کے لیے مثال بن سکیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ ہی عرصے میں شاید اُن کی جگہ ایک روزہ ٹیم کے کپتان جیسن ہولڈر کو ٹیسٹ ٹیم کی قیادت بھی سونپ دی جائے۔

(10 –نامعلوم - مبابوے )

زمبابوے نے کچھ عرصے سے کوئی ٹیسٹ مقابلہ نہیں کھیلا اور یہی وجہ ہے کہ برینڈن ٹیلر کی ریٹائرمنٹ کے باوجود ابھی تک دوسرے کپتان کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن اس کے پاس ہملٹن مساکازا اور ایک روزہ کپتان ایلٹن چگمبورا کی صورت میں دو اچھے کھلاڑی موجود ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان دونوں نے اب تک کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلا۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل قریب میں زمبابوے کی کارکردگی میں کوئی بہتری آئے گی۔