پاک-بھارت سیریز کے تابوت میں آخری کیل، آئی سی سی نے بھی ہاتھ اٹھا لیے

2 1,022

پاکستان اور بھارت کے مابین رواں سال طے شدہ سیریز اگر وقت کے مطابق ہوجائے تو شاید گزشتہ 10 سالوں میں دنیائے کرکٹ کے سب سے بڑے مقابلے ہوں گے، لیکن نہ ہی بھارت کو اس سے دلچسپی ہے اور نہ ہی بین الاقوامی کرکٹ کونسل کچھ کرتی دکھائی دے رہی۔ جب پاکستان کو آئی سی سی میں صدارت ملی تو کچھ توقع پیدا ہوئی کہ شاید اب اس عہدے کے اثر و رسوخ سے 8 سال سے معطل پاک-بھارت کرکٹ بحال ہوجائے، لیکن اب نہ صرف صدر بلکہ بحیثیت مجموعی ادارہ بھی آئی سی سی بے دست و پا دکھائی دیتا ہے۔

لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق کپتان اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے موجودہ صدر ظہیر عباس نے کہا ہے کہ وہ پاک-بھارت کرکٹ کی بحالی کے لیے کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ نئے قوانین و ضوابط کے مطابق باہم سیریز کا تعین دونوں ممالک کے بورڈز نے کرنا ہے، آئی سی سی درمیان میں کچھ نہیں کرسکتا۔ اب یہ مکمل طور پر پاکستان اور بھارت کا آپس کا معاملہ ہے۔

گزشتہ سال ہونے والی “بگ-تھری” ترامیم کے بعد فیوچر ٹورز پروگرام کے بجائے دو ممالک کے بورڈز طے کریں گے کہ انہیں کب اور کتناکھیلنا ہے، آئی سی سی کا کردار ختم کردیا گیا ہے۔ اس سے قبل آئی سی سی طے کرتا تھا کہ آئندہ پانچ سالوں میں کون سی ٹیم کب اور کہاں کس کے مقابل ہوگی۔ گو کہ اس وقت بھی بھارت نے متعدد بار پاکستان کے خلاف کھیلنے سے انکار کیا، جس کی وجہ سے دونوں ممالک 2007ء سے اب تک کسی ٹیسٹ مقابلے میں سامنے نہیں آئے۔ آخری بار اسی سال پاکستان نے بھارت کا دورہ کیا تھالیکن 2008ء میں ممبئی میں دہشت گرد حملوں، اور بھارت کی جانب سے اس کا الزام پاکستان پر عائد کرنے، کےبعد سیاسی کے ساتھ ساتھ کرکٹ تعلقات بھی ختم ہوگئے۔ 2012ء کے اواخر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان محدود اوورز کی ایک مختصر سیریز کھیلی گئی، جسے برف پگھلنے کی پہلی علامت سمجھا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کے بعد سے اب تک ڈھائی سال کی کوئی کوشش باہم ٹیسٹ کرکٹ کو بحال نہيں کرسکی۔

ظہیر عباس کہتے ہیں کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے دونوں ممالک کو باہم کھیلنے کی اجازت دے رکھی ہے لیکن یہ پی سی بی اور بی سی سی آئی کا معاملہ ہے کہ وہ کیا طے کرتے ہیں۔ آئی سی سی اب قانونی طور پر مداخلت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کھیل واحد راستہ ہے اور اب یہ ا ن ممالک پر منحصر ہے کہ وہ حالات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

بھارت اور پاکستان کے سیاسی تعلقات میں اس وقت زبردست تناؤ پایا جاتا ہے۔ حال ہی میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ منقطع ہوا ہے اور سرحد کے دونوں اطراف سے سخت بیان بازیاں بھی جاری ہیں۔ اس صورتحال میں دسمبر میں پاک-بھارت سیریز کے جو رہے سہے امکانات بھی باقی بچے تھے، وہ ختم ہوگئے ہیں۔ اب آئی سی سی کی جانب سے بھی ہاتھ اٹھالینا گویا آئندہ پاک-بھارت سیریز کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی ہے۔

ظہیر عباس نے رواں سال جون میں بحیثیت صدر آئی سی سی میں ذمہ داری سنبھالی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے شائقین کرکٹ اور ساتھ ہی پوری دنیا چاہتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ کھیلی جائے۔

پاکستان اور بھارت نے گزشتہ سال مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے جس کے مطابق آئندہ آٹھ سال میں دونوں ممالک کو چھ سیریز کھیلنی ہیں، اور اس کا پہلا مرحلہ دسمبر 2015ء میں پاکستان کی میزبانی میں کھیلا جانا طے پایا، چاہے وہ پاکستان میں ہو یا کسی تیسرے مقام پر۔ لیکن یہ پورا معاملہ بھارت کی حکومت کی اجازت سے مشروط تھا جو اچھے موڈ میں نہیں دکھائی دیتی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سیاسی کشیدگی کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کی کرکٹ معطل ہوئی ہوئی۔ پہلی مرتبہ 1961ء میں دونوں ممالک کے کرکٹ تعلقات منقطع ہوئے تھے اور 17 سال بعد 1978ء میں دونوں ممالک مدمقابل آئے تھے، تب ظہیر عباس نے ہی شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا تھا اور تین مقابلوں میں 583 رنز بنائے تھے۔ پھر 1987ء سے 1999ء تک بھی دونوں ممالک کی باہمی سیریز ملتوی رہی۔