[آج کا دن] دنیائے کرکٹ میں ’’ڈان‘‘ کی آمد

1 1,092

چند نام ایسے ہوتے ہیں جو اپنے شعبے کی پہچان بن جاتے ہیں۔ جب بھی طبیعیات یعنی فزکس کا ذکر ہوتا ہے تو ہمارے ذہن میں فوری طور پر البرٹ آئن اسٹائن کا نام آتا ہے۔ اسی طرح ٹیلی فون کو محض دیکھتے ہیں اس کے موجد گراہم بیل کی یاد آ جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جب بھی کرکٹ کا ذکر ہوگا، بالخصوص اس کے شاندار ماضی کا، تو یہ ممکن ہی نہیں کہ ڈونلڈ بریڈمین کا تذکرہ نہ ہو۔ وہ مایہ ناز کھلاڑی کہ جنہوں نے ایسے ریکارڈز بنائے جو آج دہائیاں گزرنے کے بعد بھی نہیں ٹوٹ سکے اور شاید کبھی نہ ٹوٹ پائیں۔ آج اسی لیجنڈری بلے باز کا یومِ پیدائش ہے، یعنی وہ دن کہ جب ان کو لازمی یاد کیا جانا چاہیے۔ بریڈمین 1908ء میں آج ہی کے دن یعنی 27 اگست کو آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز میں پیدا ہوئے تھے۔

بریڈمین کو جس ریکارڈ نے آج تک 'زندہ' رکھا ہوا ہے، وہ ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ اوسط ہے، یعنی 99.94۔ اس کو توڑنا تو دور کی بات کوئی اس ریکارڈ کے قریب قریب بھی نہیں پھٹکتا۔ پھر ڈان کا سب سے زیادہ ڈبل سنچریوں کا ریکارڈ ہے جن کی تعداد 12 ہے۔ سری لنکا کے کمار سنگاکارا اس ریکارڈ کے قریب پہنچے، لیکن بالآخر ہمت ہار گئے اور کرکٹ کو خیرباد کہہ گئے۔ بہرحال، 20 سال کی عمر میں اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کرنے والے ڈان بریڈمین نے اپنا پہلا ٹیسٹ روایتی حریف انگلستان کے خلاف 1928ء میں کھیلا۔ یہ برسبین کا میدان تھا، جس نے ایک تابناک مستقبل رکھنے والے کھلاڑی کو پہلی بار بین الاقوامی کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ 20 سال بعد ڈان کے کیریئر کا خاتمہ اوول کے میدان پر ہوا۔ یہ 1948ء تھا اور اپنی آخری ٹیسٹ اننگز میں ڈان کو صرف 4 رنز بنانے کی ضرورت تھی اور وہ 100 رنز کا اوسط حاصل کرلیتے لیکن قسمت کو یہ منظور نہ تھا کیونکہ وہ اپنی آخری اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے اور اس کے ساتھ 99.94 کے ہندسے کو کرکٹ میں لافانی حیثیت مل گئی۔ اگر ہم 2 ہزار ٹیسٹ رنز کو معیار بنائیں تو اوسط کے اعتبار سے ڈان بریڈمین کے قریبی ترین بلے باز جنوبی افریقہ کے گریم پولاک ہیں، جنہوں نے 60.97 کے اوسط سے رنز بنائے۔ باقی کرکٹ تاریخ کے "بڑے" نام تو اس فہرست میں کہیں پیچھے ہیں۔

don-bradman

بریڈمین کے ستارے تو ان کے پورے کیریئر میں چمکتے دمکتے رہے، شاید ہی انہیں کبھی زوال آیا ہو لیکن ایک ہی سیریز میں 974 رنز بنانے اور ہیڈنگلے میں ٹرپل سنچری کے کارنامے انہوں نے 1930ء میں انجام دیے۔ اس ٹرپل سنچری کی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے ایک ہی دن میں 300 رنز کے ہندسے کو جا لیا اور اسی وجہ سے انہيں 1931ء میں کرکٹ کے معروف جریدے 'وزڈن' کی جانب سے سال کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ اس کے بعد اگلی دہائی میں بریڈمین کے نام کا ڈنکا بجتا رہا لیکن بریڈمین کی بدنصیبی دیکھیں، بلکہ اسے کرکٹ کے کھیل کی بھی بدقسمتی سمجھا جائے گا کہ جس زمانے میں ایسا لاجواب کھلاڑی موجود تھا، دوسری جنگِ عظیم شروع ہوگئی۔ بریڈمین کے کیریئر کے 8 سال اس جنگ کی نذر ہوگئے کیونکہ اس دوران دنیا بھر میں کہیں کرکٹ نہیں کھیلی گئی۔ اگر بریڈمین کو یہ کئی سال مل جاتے تو آج ریکارڈ بک کچھ اور ہی کہہ رہی ہوتی۔

لیکن 8 سال بھی بریڈمین کی کارکردگی کو متاثر نہیں کرسکے۔ 1946ء میں جیسے ہی کرکٹ کے میدان دوبارہ آباد ہوئے بریڈمین نے برسبین میں 187 اور سڈنی میں 234 رنز کی شاہکار اننگز کھیلیں۔ پھر یہیں نہیں رکے بلکہ اگلے سال بھارت کے خلاف 3 مقابلوں میں 4 سنچریاں بنائیں۔ پھر 1948ء کی ایشیز میں بریڈمین ہی تھے جن کے شاندار 173 رنز کی وجہ سے آسٹریلیا نے چوتھی اننگز میں 400 سے زیادہ رنز کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا۔ اگر جنگ کے بعد بریڈمین کے ابتدائی 15 مقابلوں کا ذکر کیا جائے تو وہ مزید شاندار تھے کہ ان مقابلوں میں اوسط 105 رنز تک پہنچا گیا جبکہ 8 سنچریاں بھی اس میں شامل تھیں۔

بریڈمین طویل اننگز کھیلنے کے عادی تھے، 'لمبی ریس کے گھوڑے' تھے اور یہ بات اعدادوشمار بخوبی ثابت بھی کرتے ہیں۔ عام طور پر بلے بازوں کی نصف سنچریوں کی تعداد سنچریوں سے زیادہ ہوتی ہے لیکن ڈان کے مقابلے میں یہ معاملہ الٹا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق 29 سنچریوں کے مقابلے میں ان کے پاس صف 13 نصف سنچریاں ہیں۔ طویل اننگز کھیلنے کا حوصلہ اور دم دیکھیں کہ 29 میں سے 12 اننگز 200 رنز سے زائد کی ہیں بلکہ دو مرتبہ تو انہوں نے ٹرپل سنچری بھی بنائی۔ یعنی بریڈمین نے ہر 1.79 اننگز میں سنچری بنائی ہے، جو ان کے بڑے کھلاڑی ہونے کا ثبوت ہے۔

52 ٹیسٹ مقابلے کھیلنے والے بریڈمین ایسے دور میں کرکٹ سے وابستہ رہے جب عموماً پانچ ٹیسٹ میچز کی سیریز کھیلی جاتی تھیں، جو آج کل تو شاذونادر ہی ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈان نے صرف 11 سیریز کھیلیں جن میں ہر سیریز میں ان کا اوسط بلندیوں کو چھوتا رہا۔ چار مرتبہ تو انہوں نے سیریز میں 100 سے زیادہ کے اوسط سے رنز بنائے۔ 1932-33ء کی بدنام زمانہ باڈی لائن سیریز میں ان کا اوسط سب سے کم رہا لیکن وہ بھی 56.57 تھا، یعنی اپنے سچن تنڈولکر کے کیریئر ایوریج 53.78 سے بھی زیادہ۔

دیگر مایہ ناز بلے بازوں کے مقابلے میں بریڈمین صرف رنز بنانے کی مشین نہیں تھے بلکہ ان کے رنز نے ہمیشہ ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ 29 میں سے 23 سنچریاں ایسے مقابلوں میں بنائیں، جن میں آسٹریلیا کو کامیابی نصیب ہوئی۔ ان کے پورے عہد میں آسٹریلیا صرف ایک بار سیریز ہارا، وہی "باڈی لائن سیریز"، جس میں کامیابی کے باوجود آج بھی انگلستان پر لعن طعن ہوتی ہے۔

ڈان بریڈمین، سال بہ سال

سال مقابلے اننگز رنز بہترین اننگز اوسط سنچریاں نصف سنچریاں صفر
1928ء 2 4 210 112 52.50 1 1 0
1929ء 2 4 258 123 86.00 1 1 0
1930ء 6 8 978 334 122.25 4 0 0
1931ء 7 9 950 226 105.55 5 0 1
1932ء 3 3 402 299* 402.00 2 0 1
1933ء 3 6 293 76 48.83 0 3 0
1934ء 5 8 758 304 94.75 2 1 0
1936ء 2 4 120 82 30.00 0 1 2
1937ء 3 5 690 270 138.00 3 0 0
1938ء 4 6 434 144* 108.50 3 1 0
1946ء 2 2 421 234 210.50 2 0 0
1947ء 5 8 457 185 65.28 1 3 1
1948ء 8 13 1025 201 113.88 5 2 2

فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی بریڈمین خوب کھیلے۔ 234 مقابلوں میں 95.14 کی اوسط سے 28 ہزار سے زیادہ رنز بنائے جس میں سب سے بہترین اننگز 452 رنز کی تھی، وہ بھی ناقابل شکست۔

بریڈمین نے اپنے کیریئر کو اوائل میں ہی اپنا لوہا منوا لیا تھا۔ محض 21 سال کی عمر میں ڈبل سنچری بنانے والے بلے باز بنے، جب 1930ء میں لارڈز کے میدان پر یہ کارنامہ انجام دیا۔ 376 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے اور 25 بار گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھاتے ہوئے ڈان نے 254 رنز بنائے۔ ابھی دنیا اس حیرت سے باہر ہی نہیں نکلی تھی کہ دو ہفتے بعد انہوں نے ہیڈنگلے میں ٹرپل سنچری کے ذریعے سب کو دنگ کردیا۔ یہ ایک عام ٹرپل سنچری نہیں تھی، ایک محض 21 سالہ نوجوان کی صرف ایک دن میں بنائی گئی تاریخی اننگز تھی۔ کھانے کے وقفے کے فوراً بعد سنچری تک پہنچے، چائے کے وقفے تک مزید 115 رنز کا اضافہ کیا اور جب دن مکمل ہوا تو بریڈمین 309 کے انفرادی اسکور کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنی دھاک بٹھا چکے تھے۔ اس سیریز میں بریڈمین نے 974 رنز بنائے جو آج لگ بھگ 84 سال گزارنے کے باوجود عالمی ریکارڈ ہے۔

اس کے بعد اگلی ایشیز ہی 'باڈی لائن' تھی۔ آسٹریلیا کو چار-ایک کی غیر متوقع شکست ہوئی۔ واحد مقابلہ جس میں آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کی وہ بریڈمین کی سنچری کی بدولت تھی۔ اگرچہ انگلستان سیریز جیت گیا لیکن بدنامی اس کے نصیب میں لکھ دی گئی۔

آغاز کی طرح بریڈمین کے کیریئر کا اختتام بھی شاندار تھا۔ ان کی آخری سنچری ایک عالمی ریکارڈ کا حصہ تھی کیونکہ اس وقت بریڈمین کی عمر 40 سال تھی جس میں انہوں نے 173 رنز کی ناقابل شکست اور رشک آمیز اننگز کھیلی اور آسٹریلیا کو 404 رنز کے ہدف تک ناقابل یقین انداز میں پہنچایا۔

ویسے تو اپنے زمانے کی ہر ٹیم کے خلاف بریڈمین کا ریکارڈ بہترین ہے لیکن انہوں نے زیادہ تر مقابلے انگلستان کے خلاف کھیلے جن میں 89.78 کے اوسط سے رنز بنائے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف تین مقابلوں میں انہوں نے 74.50 کا اوسط حاصل کیا۔ یہ اس زمانے کی مضبوط ترین ٹیمیں تھیں، تو کمزوروں کا بریڈمین نے کیا حال کیا ہوگا؟ خود ہی دیکھ لیں۔ بھارت کے خلاف 178.75 اور جنوبی افریقہ کے خلاف 201.50 کا اوسط۔

بعد از ریٹائرمنٹ بریڈمین کو 1949ء میں ’’سر‘‘ کا خطاب دیا گیا، جبکہ 2000ء میں وزڈن نے آپ کو صدی کے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں شمار کیا۔

25 فروری 2001ء کو ڈان بریڈمین اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ اس وقت ان کی عمر 92 سال تھی لیکن ان کی کارکردگی اور ریکارڈز کرکٹ کی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

warne-bradman-sachin