دنیائے کرکٹ کا پہلا درویش

1 1,079

کھیل رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق سے ماوراء ہے، ہمیں محمد یوسف تب بھی پسند تھے جب وہ یوسف یوحنا تھے، پاکستان کی نمائندگی کرنے والے چوتھے مسیحی تھے اور تب بھی پاکستان کے کرکٹ شائقین میں یکساں مقبولیت پائی جب انہوں نے 2005ء میں اسلام قبول کیا۔ آج پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے اہم ترین بلے بازوں میں سے ایک محمد یوسف کا یومِ پیدائش ہے۔

1998ء سے 2010ء تک 90 ٹیسٹ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے یوسف سب سے زیادہ رنز بنانے والے ملکی بلے بازوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ اپنے پہلے ٹیسٹ میں، جب وہ محمد یوسف نہیں بلکہ یوسف یوحنا تھے، کارکردگی تو کچھ ایسی خاص نہ تھی لیکن ڈربن کا وہ ٹیسٹ بہت یادگار تھا جہاں اظہر محمود کی بلے بازی اور شعیب اختر اور مشتاق محمد کی گیندبازی کے نتیجے میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کی سرزمین پر اپنی پہلی کامیابی حاصل کی۔ یوں یوسف کی آمد پاکستان کے لیے بابرکت ضرور ثابت ہوئی تھی۔ لیکن یوسف اپنی موجودگی کا احساس ابتداء ہی میں دلانے لگے۔ ابتدائی 4 مقابلوں میں 4 نصف سنچریاں ان کے قبضے میں تھیں اور پھر پانچویں میں انہوں نے سنچری کا سنگ میل بھی حاصل کرلیا۔

2000ء میں ویسٹ انڈیز کے دورے پر شاندار کارکردگی، اور پے در پے سنچریوں، نے پاکستان کو تاریخ میں پہلی بار کیریبین سرزمین پر سیریز جیتنے کے قریب پہنچایا لیکن امپائروں کو یہ منظور نہ تھا، ان کے غلط فیصلے پاکستان کی جیت کی راہ میں آڑے گئے اور یوں پاکستان ایک تاریخی فتح سے محروم رہ گیا۔

یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کرکٹ میں بڑے بڑے نام موجود تھے اور مسلسل اچھی کارکردگی پیش کرنے کے باوجود یوسف مستقل نشست پانے میں ناکام رہے تھے لیکن 2003ء کے عالمی کپ میں پاکستان کی بدترین شکست کے بعد جب 'صفائی مہم' شروع ہوئی تو یوسف کی اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد سے کیریئر کے اختتام تک وہ کبھی ڈراپ نہیں ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ 2004ء میں آسٹریلیا کا دورہ کیا تو ملبورن ٹیسٹ سے قبل کپتان انضمام الحق کے زخمی ہونے کی وجہ سے انہیں قیادت کا موقع بھی ملا۔ یوں وہ پاکستان کے پہلے مسیحی کپتان بھی بنے۔ گو کہ باقی مقابلوں کی طرح اس میں بھی پاکستان کو شکست ہوئی لیکن یوسف نے بحیثیت کپتان اپنی پہلی سنچری اسی مقابلے میں بنائی۔

2005ء میں انگلستان ایشیز سیریز جیتنے کے بعد پاکستان کے دورے پر پہنچا تو اس کا خیال تھا کہ وہ باآسانی کامیابی حاصل کرے گا مگر میزبان کے ارادے کچھ اور ہی تھے۔ کپتان انضمام الحق اور محمد یوسف کی ذمہ دارانہ کارکردگی کے نتیجے میں پاکستان یہ سیریز دو-صفر سے جیتنے میں کامیاب ہوا۔ خاص بات تیسرے مقابلے میں یوسف کی 223 رنز کی شاندار اننگز تھی۔ یہ مقابلہ پاکستان نے ایک اننگز اور 100 رنز سے جیتا۔ اس سیریز میں کپتان کے بعد سب سے زیادہ رنز بنانے والے یوسف تھے، جنہوں نے تین مقابلوں میں 68.40 کے اوسط سے 342 رنز بنائے۔

mohammad-yousuf

لاہور ٹیسٹ کی اس شاندار اننگز نے دنیا کو خبردار کردیا تھا کہ اب یوسف کی نظریں آسمانوں پر ہیں اور پھر چند ماہ بعد جب 2006ء کا سال شروع ہوا تو انہوں نے ایسا کارنامہ انجام دیا جو آج تک کوئی نہیں دے سکا۔ 11 ٹیسٹ مقابلوں میں 99.93 کے اوسط سے 1788 رنز، یعنی ویوین رچرڈز کا ایک سال میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا 30 سال پرانا ریکارڈ ماضی کا حصہ بن گیا۔ اس سال کا آغاز انہوں نے بھارت کے خلاف فیصل آباد میں 173 رنز کی اننگز کے ساتھ کیا اور پھر روایتی حریف کے خلاف فیصل آباد میں 126 اور کراچی میں 97 رنز کی اننگز کھیلیں۔

سال کے وسط میں جب پاکستان انگلستان کے دورے پر پہنچا۔ یہاں یوسف نے سب سے پہلے لارڈز میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ انگلستان کے 528 رنز کے جواب میں جب پاکستان 4وکٹیں محض 68 رنز پر گر چکی تھیں تو یوسف نےکپتان انضمام کے ساتھ مل کر اپنا کمال دکھانا شروع کیا۔ پہلے تو اسکور کو 241 رنز تک پہنچا کرٹیم کی ہمت افزائی کی پھر ٹیل اینڈرز کے ساتھ مل کر 145 رنز کا اضافہ کرکے اسکور کو 445 رنز تک پہنچا دیا۔ یوسف 330 گیندوں پر 202 رنز بنانے کے بعد آخری کھلاڑی تھے، جو آؤٹ ہوئے۔ پاکستان بعد میں مقابلہ بھی بچانے میں کامیاب ہوگیا اور یوسف محسن خان کے بعد پاکستان کے دوسرے بلے باز بنے، جنہیں لارڈز کے تاریخی میدان پر ڈبل سنچری بنانے کا موقع ملا۔ مجموعی طور پر یوسف نے کیریئر میں 4 ڈبل سنچریاں بنائیں، اور تین مرتبہ 200 کے قریب پہنچ کر بھی منزل تک نہ پہنچ پائے۔ اگر وہ ایسا کرلیتے تو ان کی ڈبل سنچریوں کی تعداد 7 تک پہنچ جاتی ہے اور وہ پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ ڈبل سنچریاں بنانے والے بلے باز ہوتے۔ فی الوقت یہ ریکارڈ جاوید میانداد کے پاس ہے، جن کی ڈبل سنچریوں کی تعداد 6 ہے۔

اسی سیریز میں ہیڈنگلے کے مقام پر یوسف ایک اور ڈبل سنچری بنا ڈالتے، اگر صرف 8 رنز کی کمی سے محروم رہ رہ جاتے۔ علاوہ ازیں اوول میں 128 رنز کی خوبصورت اننگز بھی اس سیریز میں یوسف کا کارنامہ تھی۔ 4 ٹیسٹ مقابلوں میں 90.31 کے اوسط سے 631 رنز۔ جہاں یوسف کے لیے یہ سیریز یادگار تھی، وہیں پاکستان کے لیے مایوس کن، کیونکہ تین-صفر سے شکست بھی ہوئی اور اوول تنازع نے بھی جنم لیا، جب بال ٹمپرنگ کے الزام پر پاکستان نے میچ کھیلنے سے انکار کردیا تھا۔

بہرحال، دورۂ انگلستان میں محمد یوسف کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ وزڈن نے اسی کی بنیاد پر یوسف کو سال کے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں شمار کیا جبکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے سال کے بہترین ٹیسٹ کھلاڑی کا اعزاز دیا۔

ابھی 2006ء کا سال جاری تھا، ویسٹ انڈیز نے پاکستان کا دورہ کیا تو یوسف ان کے لیے وبالِ جان بن گئے۔ لاہور میں 192، ملتان میں 191، کراچی میں دونوں اننگز میں سنچریاںبنا کر وہ ایک سال میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز بن گئے۔

پاکستان کے ہر کھلاڑی کی طرح محمد یوسف کے کیریئر میں بھی اتار چڑھاؤ آئے، تنازعات کا شکار ہوئے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا کیریئر وقت سے پہلے ختم ہوگیا۔ یوسف کی پہلی غلطی پاکستان کرکٹ بورڈ کے فیصلے کے خلاف انڈین کرکٹ لیگ کھیلنا تھی۔ یہیں سے ان کے معاملات خراب ہونا شروع ہوئے اور جب 2009ء کے اواخر میں پاکستان کرکٹ ٹیم آسٹریلیا کے بھیانک دورے پر پہنچی تو اس کے خاتمے کے ساتھ ہی یوسف کے کیریئر کے تابوت میں بھی آخری کیل ٹھونک دی گئی۔ اس دورے پر پاکستان ایک مقابلہ بھی نہ جیت سکا تھا، نہ ٹیسٹ، نہ ایک روزہ اور نہ ہی کوئی ٹی ٹوئنٹی، کھلاڑیوں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ان کے باہمی تعلقات بھی کشیدہ تھے اور نتیجہ اتنی شرمناک شکست کی صورت میں نکلا۔

بورڈ نے آسٹریلیا میں شکست کے اسباب جاننے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی بنائی اور کچھ عرصے بعد دیگر کھلاڑیوں سمیت محمد یوسف پر بھی غیر معینہ مدت کے لیے پابندی لگا دی گئی۔ اس کے بعد یوسف دلبرداشتہ ہوگئے اور کرکٹ سے دوری اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا لیکن نجانے کیوں اسی سال یعنی 2010ء میں، انہوں نے فیصلہ واپس لے لیا اور بورڈ نے انہیں ایک مرتبہ پھر انگلستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ مگر قسمت کو شاید یہی منظور تھا کہ یوسف اپنے کیریئر کو مزید جاری نہ رکھ سکیں۔ اس واپسی کے بعد ہی پاکستان کرکٹ کے سب سے بڑے بحران نے جنم لیا، اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے نتیجے میں۔ ایک بار تحقیقات کے لیے کمیٹی بنی، کئی کھلاڑی باہر ہوگئے، جن میں محمد یوسف بھی شامل تھے اور ان کا کیریئر ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔

یوسف کے ٹیسٹ کیریئر پر نظر ڈالیں تو اعداد وشمار نہیں بہت بڑا بلے باز ثابت کرتے ہیں۔ 90 ٹیسٹ مقابلوں میں 52.29 کے اوسط سے 7530 رنز، 4 ڈبل سنچریوں سمیت کل 24 سنچریاں اور 33 نصف سنچریاں۔

محمد یوسف کا ٹیسٹ کیریئر

1998ء تا 2010ء

مقابلے اننگز رنز بہترین اننگز اوسط سنچریاں نصف سنچریاں چوکے چھکے کیچز
90 156 7530 223 52.29 24 33 957 51 65

صرف ٹیسٹ ہی نہیں بلکہ ایک روزہ میں بھی یوسف پاکستان کے بڑے بلے بازوں کی فہرست میں آتے ہیں۔ انہوں نے 288 ایک روزہ مقابلوں میں 41.71 کے اوسط سے 9720 رنز بنائے اور اگر کیریئر کے اختتام پر وہ تنازعات کی زد میں نہ آتے تو 300 مقابلے بھی کھیل لیتے اور انضمام الحق کے بعد 10 ہزار رنز کا سنگ میل عبور کرنے والے دوسرے پاکستانی بھی بن جاتے۔ بہرحال، 15 سنچریاں اور 64 نصف سنچریاں ان کے ایک روزہ ریکارڈ پر موجود ہیں یعنی وہ سعید انور کے بعد سب سے زیادہ سنچریاں اور انضمام الحق کے بعد سب سے زیادہ نصف سنچریاں بنانے والے دوسرے پاکستانی بلے باز ہیں۔

یوسف کے ایک روزہ کیریئر کی سب سے خوشگوار یاد 2000ء میں ڈھاکہ سے وابستہ ہے۔ ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف مقابلے میں انہوں نے ایک شاندار سنچری بنائی، بلکہ محض سنچری نہیں بہت ہی منفرد سنچری۔ یوسف نے ابتدا تو انتہائی سستی سے کی، 90 گیندوں پر جاکر کہیں اپنی نصف سنچری مکمل کی لیکن اس کے بعد یکدم ان میں بجلی سی بھر گئی۔ اگلی صرف 23 گیندوں پر انہوں نے 50 رنز بنائے اور اننگز کی آخری گیند پر چھکے کے ذریعے سنچری بھی مکمل کی۔ شروع میں تو ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان یوسف کی سست روی کی وجہ سے ہار جائے گا، لیکن بعد میں انہی کی اننگز کی بدولت پاکستان نے نہ صرف بھارت کو شکست دی بلکہ ٹورنامنٹ سے بھی باہر کردیا۔

2004ء میں چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کے خلاف ہی یوسف کی اننگز بھی یادگار تھی۔ناقابل شکست 81 رنز کی بدولت پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد 3 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔

یوسف کے ایک روزہ کیریئر کا اختتام 2010ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے بعد ہوا، جو متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی اور جنوبی افریقہ نے تین-دو سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد یوسف کوئی مقابلہ نہ کھیل سکے البتہ 2011ء میں حکومت پاکستان نے محمد یوسف کو تمغہ حسنِ کارکردگی سے ضرور نوازا۔

محمد یوسف کا ایک روزہ کیریئر

1998ء تا 2010ء

مقابلے اننگز رنز بہترین اننگز اوسط سنچریاں نصف سنچریاں چوکے چھکے کیچز
288 273 9720 141* 41.71 15 64 785 90 58