[آج کا دن] جب سعید انور پیدا ہوئے

2 1,214

پاکستان کی تاریخ میں 6 ستمبر کا دن سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے کیونکہ اِس دن جنگ کے میدان میں پاکستان نے بھارت کو شکستِ فاش دی تھی، لیکن دنیائے کرکٹ میں آج کے دن کی اہمیت اس لیے ہے کیونکہ اس روز مایہ ناز بلے باز سعید انور کی ولادت بھی ہوئی تھی، جو 1968ء میں کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ افواجِ پاکستان کی طرح سعید بھی دشمن کو پچھاڑنے اور رنز بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ شائقین کرکٹ کو اپنی خوبصورت بلے بازی کے ذریعے مسلسل ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھنے پر مجبور کردیتے تھے، بس دل کرتا تھا کہ سعید انور بلے بازی کرتے رہے اور ہم انہیں دیکھتے رہیں۔

اگرچہ وکٹ کے چاروں اطراف رنز بنانے میں سعید انور کو عبور حاصل تھا لیکن جس طرح شیر اپنا شکار نہیں چھوڑتا، سعید انور بھی آف سائیڈ پر جاتی گیند کو نہیں چھوڑتے تھے۔ پلک جھپکتے میں گیند تھرڈ مین، گلی، پوائنٹ اور مڈ آف پر نظر آتی تھی۔ اس "سزا" سے بچنے کے لیے چند گیندبازوں نے سعید انور کو لیگ سائیڈ پر گیندیں پھینکنے کی منصوبہ بندی مگر اِس کوشش میں بھی ناکام رہتے کیونکہ وہ ایسا کرتے ہوئے بھول جاتے تھے کہ بلے باز کوئی اور نہیں بلکہ سعید انور ہیں۔

سعید انور طویل اننگز کے عادی تھے، یعنی اُنہیں ’’لمبی ریس کا گھوڑا’’ کہا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ ثبوت ایک روزہ میں مسلسل تین سنچریاں بنانے کا اپنے زمانے کا عالمی ریکارڈ برابر کرنا، تین مرتبہ مسلسل دو مقابلوں میں سنچریاں بنانا، ایک روزہ میں 20 مرتبہ تہرے ہندسے کی اننگز کھیلنا، جو آج بھی ایک قومی ریکارڈ ہے، اور اپنے زمانے کی سب سے بڑی ون ڈے اننگز کھیلنا ہیں۔

ایک شاندار کیریئر پر نظر تو ڈالیں۔ 247 ایک روزہ مقابلے، 20 سنچریاں اور 43 نصف سنچریاں،39.21 کے اوسط کے ساتھ 8824 رنز۔ پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والوں کی فہرست میں سعید انور انضمام الحق اور محمد یوسف کے بعد تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔

بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ سعید انور کے ایک روزہ کیریئر کی بات کی جائے اور بھارت کے خلاف چنئی میں کھیلی گئی 194 رنز کی یادگار اننگز کو نظر انداز کردیا جائے؟ سعید انور نے اِس اننگز کے ذریعے ثابت کردیا تھا کہ پاکستانی کھلاڑی کبھی بھی کچھ بھی کرسکتا ہے ۔ گو کہ سعید انور ایک روزہ کرکٹ کی پہلی ڈبل سنچری بنانے میں ناکام رہے، ویوین رچرڈز کے ایک اہم ترین ریکارڈ کو نہ صرف توڑنے میں کامیاب ہوئے بلکہ اگلے 13 سال تک ایک روزہ کی طویل ترین اننگز پر بھی قابض رہے۔ یہاں تک کہ 2010ء میں عظیم بلے باز سچن تنڈولکر نے ایک روزہ کرکٹ کی پہلی ڈبل سنچری کے ذریعے اسے توڑا۔

saeed-anwar

ایک روزہ کرکٹ سے ہٹ کر ٹیسٹ کرکٹ میں بھی سعید انور کا ریکارڈ شاندار رہا۔ انہوں نے 55 میچوں میں11 سنچریوں اور 25 نصف سنچریوں کی مدد اور 45.52 کی اوسط سے 4052 رنز بنائے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی رنز کے اعتبار سے سعید انور کی سب سے بڑی اننگز بھارت کے خلاف ہی تھی، جو انہوں نے 1999ء میں کولکتہ کے میدان میں بنائی تھی۔ اِس اننگز میں سعید انور نے ناقابل شکست 188 رنز بنائے تھے۔ اِس سے قبل سعید کی طویل ترین اننگز 1996ء میں انگلستان میں تھی، جب انہوں نے اوول کے میدان پر 176 رنز بنائے اور عالمی شہرت سمیٹی۔ یہی وہ کارکردگی ہے جس کے بعد معروف عالمی جریدے وزڈن نے 1997ء میں آپ کو سال کا بہترین کرکٹر قرار دیا۔

اگر سعید انور کے کیرئیر کے اختتام کی بات کی جائے تو وہ ہرگز ہرگز اُن کے شایان شان نہیں تھا۔ لیکن اس کی وجوہات کرکٹ سے متعلق بھی نہیں تھی۔ 2001ء میں سعید انور کی صاحبزادی بسمہ بچپن ہی میں انتقال کرگئیں۔ اس صدمے سے سعید انور بہت متاثر ہوئے اور یہیں سے انہوں نے مذہب کا رخ کیا۔

گو کہ عالمی کپ 2003ء میں سعید انور کو پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا، اور انہوں نے بھارت کے خلاف اہم مقابلے میں سنچری بھی بنائی، لیکن اس عالمی کپ میں شرمناک ناکامی کے بعد کئی کھلاڑیوں سمیت سعید انور کے کیریئر کا بھی اختتام ہوگیا۔

اب سعید گزشتہ کئی سالوں سے مذہب کے لیے وقف ہیں اور آج تک کئی کھلاڑیوں کو تبلیغ دین کے کاموں کی طرف راغب کر چکے ہیں۔

اگر پاکستان کی تاریخ کے بہترین اوپنرز یا بائیں ہاتھ کے بلے بازوں کا ذکر ہوگا، تو وہ ہمیشہ سعید انور کے بغیر ادھورا رہے گا۔