ایلسٹر کک، دنیا کا بہترین اوپنر!

1 1,024

پاک-انگلستان پہلا ٹیسٹ جس طرح اختتام پذیر ہوا، اس سے کئی شائقینِ کرکٹ کو سخت صدمہ پہنچا ہے اور ایک بڑی تعداد مطمئن بھی ہے، شاید اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کہاں مقیم ہیں۔ انگلستان میں تو غم و غصے میں اور اگر پاکستان میں امپائروں کے شکر گزار۔ بہرحال، ایک بات یقینی ہے کہ انگلستان نے پاکستان پر ایک نفسیاتی برتری حاصل کرلی ہے، جسے سیریز کے آغاز سے پہلے ایک ناممکن بات سمجھا جا رہا تھا۔ اس ناممکن کو ممکن بنانے کا تمام تر سہرا انگلستان کے کپتان ایلسٹر کک کو جاتا ہے۔ ایک ایسی اننگز جو پہلے پہل تو اتنی داد نہ سمیٹ سکی، اور شعیب ملک کی اننگز تلے دبی رہی لیکن آخر میں جب مقابلہ سنسنی خیزی کی حدوں کو پہنچا تو اندازہ ہوا کہ کک کی اس اننگز کی اہمیت کیا تھی۔ اس لیے انگلستان کے سابق کپتان اور کوچ گراہم گوچ یہ کہنے میں بجا ہیں کہ ایلسٹر کک دنیا کے بہترین اوپنر ہیں۔

کک کی یہ اننگز فاتحانہ اور یادگار ثابت ہوتی اگر انگلستان کچھ بنیادی غلطیاں نہ کرتا۔ پاکستان کی پہلی اننگز کے دوران این بیل کا دو مرتبہ کیچ کے مواقع ضائع کرنا اور اسٹورٹ براڈ کا نو-بال پر وکٹ لینا، یہ انگلستان کو 309 رنز کا نقصان دے گئے۔ پھر 12 سیشن تک، 347 اوورز میں 1092 رنز بنے اور صرف 16 وکٹیں گریں، جس کے بعد اچانک میچ پلٹ گیا۔ آخری دن میں صرف 276 رنز کے اضافے پر 15 کھلاڑی آؤٹ ہوئے اور میچ نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہوتے بچ گیا۔ ویسے پاکستان نے بھی ایلسٹر کک کا کیچ چھوڑا، جس کے بعد وہ 100 اوورز تک پاکستان کے گیندبازوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے رہے۔ تو درحقیقت یہ ٹیسٹ مقابلہ اتنا اکتا دینے والا نہ ہوتا اگر دونوں ٹیموں کے فیلڈرز کے اوسان گرمی میں خطا نہ ہوجاتے۔

ان تمام پہلوؤں سے قطع نظر جو چیز یاد رہنے والی ہے، وہ ایلسٹر کک کی قائدانہ اننگز ہے۔ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے بڑے مجموعے کے جواب میں انگلستان کے حوصلے ٹوٹتے دکھائی دے رہے تھے، اس موقع پر کک چٹان کی طرح جم گئے۔ اتنی طویل اننگز کھیلی کہ ابھی اگست میں ہونے والا پورا ٹرینٹ برج ٹیسٹ بھی اتنا لمبا نہیں تھا۔ جب ان کی اننگز 263 رنز پر تمام ہوئی تب ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید وہ ہمیشہ کھیلتے رہیں گے۔ یہ تاریخ میں کسی بھی انگلش بلے باز کی طویل ترین اننگز تھی اور حنیف محمد اور گیری کرسٹن کے بعد کسی بھی مقابلے میں کریز پر سب سے لمبا قیام بھی۔

اپنے عزیز شاگرد کو 836 منٹ تک بیٹنگ کرتے ہوئے دیکھنا گوچ کے لیے کافی خوش کن منظر تھا۔ "یہ عظیم اننگز میں سے ایک تھی، وہ کم عمری سے ہی ذہنی طور پر بہت مضبوط تھا اور اس میں بھرپور توجہ اور عملی اطلاق کی بھی صلاحیت تھی۔ وہ اس وقت دنیا کے بہترین اوپننگ بلے باز ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً 10 سال سے کھیل رہے ہیں لیکن ان کی عمر اب بھی صرف 30 برس ہے۔ ہر بلے باز25 سے 35 سال کے دوران بہترین جبکہ 27 سے 33 سال کا درمیانی عرصہ عروج کا زمانہ ہوتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس وقت اپنے نقطہ عروج پر ہیں۔

کک 9593 رنز کے ساتھ پہلے ہی انگلستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز ہیں اور یہ ریکارڈ انہوں نے گراہم گوچ سے ہی چھینا تھا۔ گوچ کہتے ہیں کہ اب کک 10 ہزار رنز کی طرف جائیں گے۔ فٹنس کے حوالے سے تو شاید انہیں کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو البتہ ذہنی استحکام اور تحریک اور رنز کی لگن انہیں برقرار رکھے گی۔

واقعی کک کی فٹنس کمال کی ہے۔ اتنی شدید گرمی میں جہاں انگلستان کے کھلاڑی سیدھے کیچ چھوڑ رہے تھے، وہاں کک کی نظریں پاکستانی گیندبازوں اور وکٹ پر ایسی جمیں کہ تقریباً 14 گھنٹے تک انہیں کریز سے ہٹایا نہیں جا سکا۔

اپنی قائدانہ اننگز سے کک انگلستان کے حوصلوں میں نئی روح پھونک چکے ہیں، دوسری اننگز کی کارکردگی اس کی گواہی دینے کے لیے کافی ہے۔ اب ان کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر کوئی سچن تنڈولکر کا تقریباً 16 ہزار ٹیسٹ رنز کا ریکارڈ توڑ سکتا ہے تو وہ صرف کک ہیں۔ کک اب تک 28 سنچریاں بنا چکے ہیں اور سچن کی 51 سنچریوں کا ریکارڈ بھی اپنے نام کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے، آئندہ چند سالوں تک بہترین کرکٹ!