پاکستان اپنے پیر پر کلہاڑی نہ مارے

6 1,048

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کے ناکام دورۂ بھارت نے دونوں پڑوسی ملکوں کی کرکٹ کی بحالی کے رہے سہے امکانات بھی ختم کردیے ہیں۔ یہ تعلقات تو ویسے ہی 8 سالوں سے منقطع تھے لیکن امید کی آخری کرن کو جس بے دردی سے کچلا گیا ہے، اس نے طرفین کے عاقل و دانا افراد کو بھی متاثر کردیا ہے۔ بات صرف انتہا پسند شیو سینا کے مظاہروں تک محدود نہیں بلکہ حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے امپائروں اور تبصرہ کاروں کے لیے بھی بھارت میں حالات سازگار نہیں دکھائی دیتے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ جس طرح سرحد کے اس طرف انتہا پسند آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں، ویسے ہی پاکستان میں بھی ضرورت سے زیادہ ردعمل دکھایا جا رہا ہے۔ عام افراد سے لے کر کرکٹ ماہرین، یہاں تک کہ موجودہ کھلاڑی اور بورڈ کے اراکین تک کچھ ایسی باتیں کہہ گئے ہیں جو ہرگز پاکستان کے لیے فائدہ مند نہیں۔ ان میں جو سب سے نمایاں بات ہے، اس کی طرف نہ صرف چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے اشارہ کیا بلکہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے پاکستانی صدر ظہیر عباس تک کہہ گئے ہیں کہ "پاکستان آئندہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شرکت سے انکار کر دے گا"، "کرسکتا ہے" یا "کر دینا چاہیے" جیسے الفاظ شامل کرکے اس بات کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ایسی بات کہنے سے بالکل گریز کرنا چاہیے جس سے پاکستان کرکٹ کو ایسا نقصان پہنچنے کا شائبہ بھی ہو، جو ناقابل تلافی ہو۔

سب سے پہلے تو پاکستان کو بین الاقوامی کرکٹ میں اپنے مقام کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے اور اگر عام افراد ایسا نہیں سمجھتے تو کم از کم کرکٹ کے کرتا دھرتا تو اس کا احساس کریں۔ گزشتہ 6 سالوں سے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی۔ پانچ سالوں میں پاکستان نے تاریخ کے بدترین بحرانوں کا سامنا کیا ہے اور سالہا سال کی محنت کے بعد اب کہیں جاکر حالات کچھ قابو میں آئے ہیں۔ اس موقع پر کوئی ایسا جذباتی قدم اٹھانا، جس کا مقصد بھارت کو نقصان پہنچانا ہو، ایسا ہی ہوگا جیسے دیوار کو ٹکر مارنا، جس کا نتیجہ اپنا سر پھوٹنے کی صورت میں ہی نکلے گا، دیوار کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

بھارت اس وقت دنیائے کرکٹ کی سب سے بڑی طاقت ہے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پاک-بھارت سیاسی تعلقات کی طرح کرکٹ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہاہے اور بارہا ایسا ہوا ہے کہ دونوں ٹیمیں سالوں تک ایک دوسرے کے آمنے سامنے نہیں آئیں۔ گزشتہ 15 میں سے تو چار سال ہی ایسے تھے جب دونوں ملک تسلسل کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف کھیلے اس کے علاوہ "کوئی ویرانی سی ویرانی ہے" جیسی صورت رہی۔ لیکن جب بھی دونوں ملک کھیلے، نہ صرف عوام بلکہ خود دونوں ممالک کے بورڈز کے لیے "چھپر پھاڑ آفر" رہی۔ 2004ء سے لے کر 2007ء تک ہونے والی چار باہمی سیریز ہی اٹھا کر دیکھ لیں۔ شائقین کرکٹ کی دلچسپی اور آمدنی کے ریکارڈز ظاہر کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔

2008ء سے صورت حال تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ بھارت نے انڈین پریمیئر لیگ کے ذریعے قارون کے خزانے کی چابی ڈھونڈ لی ہے، وہ اب مالی لحاظ سے کسی کا محتاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے "بگ تھری" کے معاملے پر اتنا بڑا قدم اٹھایا کہ آئی سی سی سے ٹکر لے لی۔ بھارت نے اتنا خطرہ اسی لیے مول لیا تھا کہ اسے مالی لحاظ سے اب کوئی پریشانی نہیں تھی۔ اگر آئی سی سی سخت موقف اپناتا اور اس متنازع منصوبے کو نامنظور کرتا تب بھی بھارت کے لیے سنگین معاملہ نہیں ہوتا۔

سوال یہ ہے کہ اب بھارت پاکستان کو خاطر میں کیوں لائے؟ اس کے لیے پاکستان سے کھیلنے کی صرف ایک ہی وجہ تھی، "مال"۔ جب یہ 'مجبوری' بھی ختم ہوگئی تو "دیرینہ دشمن" کو فائدہ پہنچانے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تمام بغض و کینہ جو ماضی میں مال کے لالچ میں "دوستی" کاروپ دھار لیتا تھا، اب ایسے ڈرامے کرنے کی کوئی ضرورت رہی ہی نہیں۔ اب وہ پاکستان کو صاف انکار بھی کرے گا، ٹکا سا جواب بھی دے گا اور اگر کوئی ذمہ داری سر پر پڑی بھی تو ٹال مٹول سے کام کرکے اسے اپنے سر سے اتارے گا جیسا کہ "بگ تھری" معاملے پر حمایت حاصل کرنے کے بعد مفاہمت کی یادداشت کے حوالے سے کیا ہے۔

اس پس منظر کے ساتھ اگر پاکستان آئی سی سی کے کسی بڑے ایونٹ میں شرکت سے انکار کر دے تو بتائیں اس سے بھارت کو کیا نقصان پہنچے گا؟ کچھ بھی نہیں۔ پاکستان ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسے بہت بڑے ایونٹ کا بائیکاٹ کرکے صرف اور صرف اپنے پیر پر کلہاڑی مارے گا۔ اس کی غیر موجودگی بھارت سمیت کسی دوسرے ملک کو متاثر کرے نہ کرے لیکن پاکستان میں کرکٹ کے ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی۔ ان تمام اداروں کا پاکستان کرکٹ پر سے اعتماد اٹھ جائے گا جو اسپانسر سے لے کر نشریات اور اشتہارات سے لے کر بین الاقوامی کرکٹ تک میں پاکستان اور اس کی کارکردگی پر انحصار کرتے ہیں۔ پھر کئی ادارے آئندہ پاکستان کو اسپانسر کرنے سے انکار کریں گے، وہ نشریات کار جنہیں 'میگا ایونٹس' کا انتظار ہوتا ہے، اپنا پیسہ ڈوبنے کے بعد آئندہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ کرنے سے قبل دس مرتبہ سوچیں گے۔

دنیا کرکٹ کی چوتھی بڑی مارکیٹ 'پاکستان' کو ایسا کوئی بھی بچکانہ قدم اٹھانے سے پہلے سمجھنا چاہیے کہ موجودہ صورت حال میں اگر کسی کا پاکستان کرکٹ پر اعتماد ٹوٹا تو اسے بحال کرنے میں دہائیاں لگ جائیں گی۔