جنوبی افریقہ کا بلّا چارج، بھارت کی کمر ٹوٹ گئی

1 1,073

بیرونِ ملک بھارت کی کارکردگی جیسی بھی ہو، مگر اسے ہمیشہ "گھر کا شیر" سمجھا جاتا ہے، اور اس نے کئی بار یہ ثابت بھی کیا ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ 1991ء میں بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی سے لے کر آج تک جنوبی افریقہ کبھی بھارت کو اس کی سرزمین پر ایک روزہ سیریز نہیں ہرا سکا لیکن اس بار جنوبی افریقہ کے سامنے "گھر کے شیروں" میں بھی دم خم نظر نہ آیا۔ پہلے ٹی ٹوئنٹی سیریز کے تمام مقابلوں میں شکست ہوئی اور اب ایک روزہ میں بھی تین-دو کی ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔ وہ بھی 214 رنز کے بہت بڑے مارجن سے، بلامبالغہ ایک ذلت آمیز شکست۔

ممبئی میں پانچویں ایک روزہ مقابلے کے لیے جب تک ٹاس نہیں ہوا تھا، اُس وقت تک بھارت کو 'فیورٹ' قرار دیا جا رہا تھا مگر یہ مرحلہ جنوبی افریقہ کے نام رہا اور پھر بھارت ایک لمحے کے لیے بھی مقابلے میں واپس نہ آ سکا۔ کوئنٹن ڈی کوک اور ہاشم آملہ نے پہلی گیند سے ہی بھارتی باؤلرز کی دھلائی کا سلسلہ شروع کردیا۔ گزشتہ چار مقابلے میں بجھے بجھے دکھائی دینے والے ہاشم بھرپور رنگ میں دکھائی دے ہرے تھے لیکن برق رفتار 23 رنز کے بعد ان کی اننگز موہیت شرما کے ہاتھوں تمام ہوگئی۔

جنوبی افریقہ نے ابتدائی 50 رنز کا مرحلہ چھٹے اوور میں ہی پار کرلیا۔ ہاشم کے بعد آنے والے فف دو پلیسی اور ڈی کوک نے بھارتی گیندبازوں پر ذرا رحم نہ کیا۔ دونوں بلے بازوں کی 154 رنز کی شراکت داری کا ایک، ایک لمحہ وانکھیڑے میں موجود ہزاروں تماشائیوں کے لیے عذاب تھا۔ ڈی کوک نے سیریز میں دوسری اور بھارت کے خلاف اپنی پانچویں سنچری مکمل کی اور اس وقت میدان سے واپس آئے جب اسکور 187 رنز تک پہنچ چکا تھا۔

صرف 8 گیندوں پر 17 چوکوں اور ایک چھکے سے مزین 109 رنز کی اننگز تمام ہوئی تو میدان میں تماشائیوں نے سکھ کا سانس لیا۔ لیکن کھلاڑیوں اور ان کے حامیوں ان کا اصل امتحان تو اب شروع ہونا تھا، ابراہم ڈی ولیئرز کے ذریعے۔ ان کے ارادوں سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مقابلہ اور سیریز جیتنے کی کتنی تڑپ رکھتے ہیں۔ پھر دو پلیسی کے ساتھ مل کر انہوں نے رنز کے انبار لگا دیے۔ بھارتی گیندبازوں کی گویا کمر ہی ٹوٹ گئے۔ ان کی پھینکی گئی بال کہیں بھی پڑتی، ملتی باؤنڈری لائن پر ہی تھی۔ پہلے دوپلیسی تہرے ہندسے میں پہنچے۔ گو کہ انہیں ہمسٹرنگ انجری کا سامنا تھا اور ایک، ایک رن دوڑنا ان کے لیے دوبھر ہوگیا تھا مگر ہمت نہیں ہارا۔ صورت حال یہ ہوگئی تھی کہ ہر شاٹ مارنے کے بعد وہ زمین پر لیٹ جاتے اور بار بار فزیو کو ان کی تکلیف کم کرنے کے لیے میدان میں اترنا پڑتا۔ ایک مرتبہ تو بھارتی کپتان مہندر سنگھ دھونی نے بھی ان کی طبیعت بحال کرنے کی کوشش کی۔ بہرحال، دوپلیسی نے بھاگنے کے بجائے انہوں نے چوکوں اور چھکوں کا سہارا لیا اور کیا ہی خوبی سے لیا۔ جب وہ 133 رنز تک پہنچے تو مزید کھیلنا ناممکن ہوگیا، آرام کی غرض سے وہ ریٹائر ہو کر میدان سے واپس آ گئے۔ اس وقت 44ویں اوور میں مجموعہ 351 رنز کو چھو رہا تھا۔ 6 چھکوں اور 9 چوکوں سے مزین اننگز اپنا کام کر چکی تھی اور اب حتمی ذمہ داری ڈی ولیئرز کے کاندھوں پر تھی۔

ڈی ولیئرز نے اپنے ساتھی کو الوداع کہا اور کام میں جت گئے۔ ڈیوڈ ملر کے ساتھ مل کر سلسلہ وہیں سے جڑ گیا، جہاں سے ٹوٹا تھا۔ ڈی ولیئرز نے صرف 57 گیندوں پر 8 چھکوں کی مدد سے سنچری مکمل کی۔ 119 رنز بنانے کے بعد وہ اس وقت آؤٹ ہوئے جب اسکور 398 رنز تک پہنچ چکا تھا۔ ڈی ولیئرز کی اننگز مجموعی طور پر 11 چھکوں اور 3 چوکوں سے مزین رہی اور انہوں نے صرف 61 گیندوں کااستعمال کیا۔

ڈیوڈ ملر کے 12 گیندوں پر 22 رنز نے 50 اوورز کے اختتام تک اسکور کو 4 وکٹوں پر 438 رنز تک پہنچا دیا۔ اب تو کوئی معجزہ ہی بھارت کو جتوا سکتا تھا، جو بہرحال رونما نہیں ہوا۔

بھارتی گیندبازوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو رسوائی سے بچا ہو۔ سب سے "بہتر" گیندبازی ہربھجن سنگھ نے کی جنہوں نے 10 اوورز میں 70 رنز دیے۔ تیز گیندباز موہیت شرما نے 84 اور بھوونیشور کمار نے 106 رنز کھائے۔

بھارت کو انتہائی جارحانہ موڈ ی ضرورت تھی لیکن وہ 439 رنز کے بھاری ہدف تلے دبا دکھائی دیا۔ پہلا گھاؤ پانچویں اوور میں لگا، جب کائل ایبٹ نے روہیت شرما کو آؤٹ کرکے بھارتی کیمپ کی پریشانی میں مزید اضافہ کیا۔ ان کی جگہ نائب کپتان ویراٹ کوہلی آغے، جنہوں نے چوتھے ایک روزہ میں سنچری بنائی تھی اور بھارت کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بھارت کے پرستار اب بھی ویسی ہی اننگز کی امید لگائے بیٹھے تھے، مگر دباؤ برداشت کرنا ان کے بس کی بات بھی نہ تھی۔ صرف 7 رنز بنانے کےبعد وہ کاگیسو رباڈا کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے، جس میں اہم کردار وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک کے کیچ کا بھی تھا۔

صرف 44 رنز پر دو کھلاڑیوں کے آؤٹ ہوجانے کے بعد عام شائقین کے لیے تو یہی رہ گیا تھا کہ بھارت کتنے رنز سے ہارتا ہے البتہ پرامید بھارتی شائقین ایک بڑی شراکت داری کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ اجنکیا راہانے اور شیکھر دھاون نے 112 رنز کی شراکت داری سے ان کی امیدوں کو مزید بڑھایا۔ یہاں تک کہ 156 رنز کے مجموعے پر دھاون کی اننگز اختتام کو پہنچی۔ رباڈا نے انہیں 60 کے انفرادی اسکور پر آؤٹ کیا۔

ان کے بعد سریش رینا میدان میں آئے، اور صرف 12 رنز بنانے کے بعد رباڈا کا تیسرا شکار بنے۔ کپتان مہندر سنگھ دھونی آئے تو راہانے کی 87 رنز کی اننگز کا خاتمہ ہوگیا۔ صرف 185 رنز پر پانچ بلے باز پویلین سدھار چکے تھے۔ میچ بچانا بہت مشکل ہو چلا تھا اور کوشش شکست کے مارجن کو کم سے کم کرنے کی ہو رہی تھی۔ پھر بھی اگلی تین وکٹیں صرف 25 رنز کے اضافے سے گرگئیں۔ میدان میں موت کا سناٹا تھا اور دھونی کریز پر موجود تھے۔

219 رنز پر عمران طاہر نے دھونی کے ٹمٹاتے چراغ کو بھی گل کردیا اور 224 رنز پر بھارت کی اننگز تمام ہوگئی۔ یوں 214 رنز کی ذلت آمیز شکست کے ساتھ ہی سیریز کا فیصلہ بھی جنوبی افریقہ کے حق میں ہوگیا۔

نوجوان رباڈا نےچار اور ڈیل اسٹین نے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ عمران طاہ رکے ہاتھ دو وکٹیں لگیں اور کائل ایبٹ کو ایک شکار ملا۔

ڈی کوک کو میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا جبکہ سیریز میں تین سنچریاں بنانے اور تاریخی سیریز جتوانے میں اہم کردار ادا کرنے پر ڈی ولیئرز کو سیریز کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ ملا۔

اب بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان چار ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز کا آغاز ہوگا۔ پہلا مقابلہ 5 نومبر سے موہالی، چندی گڑھ میں شروع ہو۔ محدود اوور زکے دونوں مراحل میں شکست کے بعد اب بھارت پر دباؤ بہت زیادہ ہوگا۔ ٹیسٹ میں بھارت کی کارکردگی ویسے ہی انتہائی ناقص ہے اور اب عالمی نمبر ایک کے خلاف اسے ایک اور مشکل سیریز کا سامنا ہوگا۔