گلابی گیند کی ضرورت آخر کیوں؟

1 1,119

بین الاقوامی کرکٹ تقریباً صدی تک دن کی روشنی میں کھیلی جاتی رہی، صرف ایک ہی رنگ کی گیند سے، یعنی لال۔ ایک طویل عرصے تک کھلاڑی بھی اور شائقین کرکٹ بھی لال رنگ کی گیند سے مطمئن تھے۔ لیکن جب ایک روزہ کرکٹ دن کے بجائے رات کو مصنوعی روشنی میں کھیلی جانے لگی تو یہ مسئلہ درپیش پیش آیا کہ رات میں تو لال گیند نظر نہیں آئے گی۔ بہت غور و خوض کے بعد سفید رنگ کی گیند متعارف کروائی گئی۔

یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے لیکن کرکٹ مختصر سے مختصر ہوتی چلی گئی اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے تو ٹیسٹ میں دلچسپی بتدریج کم ہوتی نظر آرہی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ زیادہ تر ٹیسٹ مقابلے اب خالی میدانوں میں ہی ہورہے ہیں کیونکہ شائقین کرکٹ میدان میں جاکر تو کجا ٹی وی اسکرین پر بھی اتنی دیر تک ٹک کر نہیں بیٹھ رہے۔

کرکٹ کی اعلیٰ ترین قسم میں اس گھٹتی دلچسپی کو دیکھ کر یہ خیال پیش کیا گیا کہ ٹیسٹ بھی دن کے بجائے ایک روزہ مقابلوں کی طرح دن کے ساتھ ساتھ رات کی روشنی میں کھیلے جائیں۔ اِس طرح اُمید کی جاسکتی ہے کہ جدید تقاضوں پر پورا اترتی ٹیسٹ کرکٹ شاید شائقین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا سکے۔ مگر ایسا کرنے میں وہی مسئلہ درپیش آ رہا ہے جو تین، چار دہائی قبل پیش آیا تھا کہ سرخ رنگ کی گیند کھلاڑیوں کو ٹھیک طرح نظر نہیں آئے گی۔ یہیں سے گلابی گیند متعارف کروانے کا معاملہ سامنے آیا۔ جو کافی عرصے سے فرسٹ کلاس سطح پر استعمال ہو رہی ہے۔

کوکابورا کمپنی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ڈومیسٹک سطح پر گلابی گیند پچھلے پانچ سالوں میں متعدد بار آزمائی جا چکی ہے۔ اس پر مکمل اظہار اطمینان کیا جا سکتا ہے بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹیسٹ کے لیے یہ گیند مکمل طور پر تیار ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح لال کے بعد سفید گیند سے کھیلنے میں ابتدائی طور پر مشکلات پیش آئی تھیں، بالکل اسی طرح گلابی میں بھی ہوں گی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دور ہوجائیں گی۔

اگر سرخ، سفید اور گلابی گیندوں کی تیاری کی بات کی جائے تو تینوں گیندوں میں بہترین چمڑے کا استعمال ہوتا ہے، تاہم گلابی گیند کو اضافی رنگت دی جاتی ہے تاکہ یہ رات کے وقت بھی زیادہ نمایاں ہو کر نظر آئے۔

لیکن جہاں مقامی سطح پر گلابی گیند کے حوالے سے اچھے تاثرات سامنے آئے،وہیں منفی باتیں بھی منظرعام پر آئی ہیں۔ پہلی شکایت، توقع کے عین مطابق، یہ ہے کہ یہ گیند دیکھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ گلابی رنگ کو مزید گہرا کردیا جائے گا۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ گیند لال کی نسبت زیادہ سوئنگ ہورہی ہے، جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ کھیل کو نقصان ہوسکتا ہے۔

لیکن بات وہی ہے کہ یہ مسائل تو ابتدا میں سامنے آتے رہیں گے، جن پر وقتاً فوقتاً ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تمام تر مثبت اور منفی باتوں ساتھ گلابی گیند کے ساتھ کھیلا جانے والا پہلا ٹیسٹ کامیاب ہوسکے گا یا نہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تاریخ میں پہلی بار ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے تیار دکھائی دکیتی ہیں، جس کا آغاز 27 نومبر سے ایڈیلیڈ کے میدان پر ہوگا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں ہونے والی نئی جدت ٹیسٹ میچوں کے لیے شائقین کرکٹ میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ اگر ناکام ہوئی تو یہ ساری جدوجہد اور محنت ناکارہ جائے گی۔