”اور پاکستان جیت گیا“ شارجہ میں یادیں تازہ

1 1,096

بین الاقوامی کرکٹ بند، کپتان اور دو اہم ترین گیندباز اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کے بعد پابند، دو سرفہرست گیندبازوں کے باؤلنگ ایکشن پر اعتراض اور پھر پابندی، ایسے پے در پے دھچکے شاید ہی دنیا میں کوئی ملک جھیل پائے لیکن پاکستان کے لیے گویا یہ سب ”رحمت“ ثابت ہوا۔ پاکستان نے نہ صرف ان تمام مشکلات کا بخوبی سامنا کیا بلکہ دنیائے ٹیسٹ میں ایک نئی قوت بن کر ابھرا ہے۔ تیسرے اور آخری ٹیسٹ میں انگلستان کو باآسانی 127 رنز سے شکست دے کر نہ صرف سیریز دو-صفر سے جیتی بلکہ عالمی درجہ میں 9 سال بعد دوسرا مقام بھی حاصل کرلیا ہے۔

شارجہ میں آخری روز انگلستان کو جیتنے کے لیے 238 رنز یا مقابلہ بچانے کے لیے 90 اوورز تک ڈٹے رہنے کی ضرورت تھی لیکن پاکستان نے بقیہ 8 وکٹوں کے لیے اسے آدھے اوورز بھی نہیں کھیلنےدیے۔ دن کے ابتدائی 7 اوورز میں ہی پاکستان نے چار وکٹیں کھڑکا کر تمام تر خوش فہمیوں کا خاتمہ کردیا۔ یاسر شاہ نے دن میں اپنے پہلے ہی اوور میں جو روٹ کی قیمتی وکٹ بھی حاصل کی۔ جیمز ٹیلر کو ذوالفقار بابر نے یونس خان کے ہاتھوں سلپ میں آؤٹ کروایا۔ پھر دونوں نے اپنے اگلے اوورز میں جانی بیئرسٹو اور سمیت پٹیل کو صفر کی ہزیمت سے دوچار کیا۔ صرف 59 رنز پر 6 انگلستان 6 وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا۔ اس کے بعد صرف اس بات کا انتظار باقی رہ گیا تھا کہ انگلستان کتنے رنز سے ہارتا ہے۔ آخری چار وکٹوں نے 97 رنز کی مزاحمت کی جس میں بڑا حصہ کپتان ایلسٹر کک کا تھا۔ انہوں نے 164 گیندوں پر 63 رنز بنائے لیکن مقابلہ بچانا کسی کے بس کی بات نہیں تھی یہاں تک کہ 61 ویں اوور میں لاحاصل کوششیں تمام ہوئیں اور پوری ٹیم صرف 156 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔

یوں پاکستان کو متحدہ عرب امارات میں شکست دینے کا خواب انگلستان دوسری کوشش میں بھی پورا نہ کرسکا اور آسٹریلیا کی طرح نامراد ہی لوٹا۔ ایک سال قبل سعید اجمل اور عبد الرحمٰن کی عدم موجودگی میں یہی یاسر اور ذوالفقار تھے جنہوں نے پاکستان کو فتح یاب کیا اور آج بھی انہوں نے انگلستان پر فیصلہ کن وار کیے۔ ان کا بھرپور ساتھ شعیب ملک نے دیا اور تین وکٹوں کے ساتھ اپنے آخری ٹیسٹ کو یادگار بنا لیا۔ یاسر نے 4، ذوالفقار نے 2 جبکہ شعیب ملک نے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ مجموعی طور پر شعیب نے اپنے آخری ٹیسٹ میں 7 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

مایوس کن شکست کے بعد انگلستان اب عالمی درجہ بندی میں چھٹے نمبر پر آ گیا ہے۔ پچھلی بار، 2012ء میں، جب انگلستان متحدہ عرب امارات آیا تھا تو وہ عالمی نمبر ایک تھا اور پاکستان کے ہاتھوں کلین سویپ شکست سے دوچار ہوا۔ اب وہ عالمی نمبر تین کی حیثیت سے میدان میں آیا اور ایک مرتبہ پھر زخم چاٹتا ہوا واپس آ گیا ہے۔ ویسے شارجہ میں آخری روز صبح کے سیشن میں انگلستان کی وکٹیں گرتی دیکھ کر ہمیں ابوظہبی 2012ء کی یاد آ رہی تھی جب 145 رنز کے تعاقب میں انگلستان صرف 72 پر ڈھیر ہوگیا تھا، آج شارجہ میں تقریباً وہی تاریخ دہرائی گئی۔

آخر میں محمد حفیظ کو میچ کی سب سے بڑی اننگز کھیلنے پر بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا جبکہ سیریز کے بہترین کھلاڑی یاسر شاہ قرار پائے۔ یاسر شاہ نے صرف 21.53 کے اوسط کے ساتھ سب سے زیادہ 15 وکٹیں حاصل کیں۔ وہ بھی صرف دو مقابلوں میں۔ انہوں نے زخمی ہونے کی وجہ سے پہلا ٹیسٹ نہیں کھیلا تھا۔