برسبین ٹیسٹ میں آسٹریلیا یقینی فتح کے قریب

0 1,004

برسبین ٹیسٹ کی پہلی گیند سے تیسرے دن کے اختتام تک، ایک بار بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میزبان آسٹریلیا کے خلاف کوئی رکاوٹ ہے، دن کے اختتام پر آسٹریلیا نے چار وکٹوں کے نقصان پر 264 رنز بنالیے جبکہ نیوزی لینڈ کے خلاف اُسے مجموعی طور پر 503 کی برتری حاصل ہوگئی ہے۔

جب تیسرے دن کا آغاز ہوا تو مہمان ٹیم مشکل صورتحال سے گزرہی تھی کیونکہ محض 157 رنز پر اُس کے پانچ کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے اور فالو آن سے بچنے کے لیے مزید 199 رنز درکار تھے۔ اِس وقت وکٹ پر کین ولیم سن اور بی جے واٹلنگ موجود تھے۔ نیوزی لینڈ کو اِس موقع پر بڑی شراکت داری کی ضرورت تھی مگر جب ٹیم کا اسکور 185 تک پہنچا تو مچل جانسن نے واٹلنگ کو 32 رنز پر ڈھیر کردیا۔

چھ وکٹوں کے نقصان کے بعد کوئی ایسا بلے باز نہیں تھا جو زیادہ رنز بنانے کی صلاحیت رکھتا مگر سب نے حصہ بقدر جثہ ولیم سن کا ساتھ نبھایا۔ پہلے مارک کریگ کے ہمراہ ولیم سن نے 46 رنز کی شراکت داری قائم کی۔ جب ٹیم کا اسکور 231 تک پہنچا تو نیتھن لیون نے 24 رنز پر کریگ کو پویلین کی راہ دکھائی۔ اِس کے بعد ولیم سن نے ڈاگ بریسویل کے ساتھ 42 رنز کی شراکت داری قائم کی، اِسی دوران ولیم سن نے ٹیسٹ کرکٹ کی گیارہویں اور آسٹریلوی کے خلاف پہلی سنچری بھی بنائی۔

ایک طرف دھیرے دھیرے نیوزی لینڈ کا اسکور بڑھ رہا تھا تو دوسری طرف وکٹیں گرنے کا بھی سلسلہ جاری تھا یہاں تک کہ جب ٹیم کا اسکور 317 تک پہنچا تو مچل اسٹارک کی گیند پر خود ولیم سن 140 رنز بناکر آوٹ ہوگئے۔ ولیم سن کی شاندار بلے بازی کے سبب نیوزی لینڈ کی ٹیم فالوآن سے تو نہ بچ سکی مگر اُس خفت سے ضرور بچ گئی جو 157 پر پانچ کھلاڑیوں کے آوٹ ہونے کے بعد نظر آرہی تھی۔

آسٹریلیا کی جانب سے سب سے کامیاب گیند باز مچل اسٹارک رہے جنہوں نے 57 رنز دیکر چار کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی جبکہ مچل جانسن تین وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے۔

جب آسٹریلیا کی دوسری اننگ کا آغاز ہوا تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پہلی اننگ کی جھلکیاں چل رہی ہیں۔ کرس راجرز کے ریٹائر ہونے کے بعد آسٹریلیا کو ایک ذمہ دار اوپنر کی ضرورت تھی اور ڈیوڈ وارنر اور جو برنز نے برسبین ٹیسٹ کی دونوں اننگ میں طویل شراکت داری قائم کرکے ایک ہی میچ میں آسٹریلوی ٹیم کی اِس بڑی مشکل کو دور کردیا۔

دونوں بلے بازوں نے پہلی اننگ میں 161 رنز کی شراکت داری قائم کی جبکہ دوسری اننگ میں 237 رنز کی۔ اِس شراکت داری کو قائم کرنے کے لیے جو برنز نے اپنے کیرئیر کی پہلی سنچری بنائی جبکہ ڈیوڈ وارنر میچ کی دوسری سنچری بنانے میں کامیاب رہے۔ اِن دونوں سنچریوں کی خاص بات یہ تھی کہ دونوں نے کم گیندوں پر زیادہ رنز بنائے یعنی برنز نے 123 گیندوں پر 129 اور وارنر نے 113 گیندوں پر 116 رنز بنائے۔ وارنر دونوں اننگ میں سینچری بناکر سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ اور سابق بھارتی کپتان سنیل گاوسکر کے بعد تیسرے بلے باز بن گئے ہیں جنہوں نے تین ٹیسٹ میچوں کی دونوں اننگز میں سنچری اسکور کی ہو۔

آسٹریلوی بلے بازی دیکھتے ہوئے کئی بار خیال آیا کہ شاید دونوں ٹیموں کے لیے بنی وکٹوں میں فرق ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو آسٹریلوی بلے باز آوٹ ہونے کا نام نہیں لے رہے جبکہ دوسری طرف نیوزی لیںڈ کے بلے بازوں سے وکٹ پر کھڑا رہنا محال ہے۔

اگرچہ اوپنرز کو آوٹ کرنے کے بعد نیوزی لینڈ کے گیند باز کپتان اسٹیو اسمتھ اور مچل مارش کو جلدی آوٹ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں مگر اب بھی وکٹ پر پہلی اننگ میں 174 رنز بنانے والے عثمان خواجہ اور ناقابل شکست 83 رنز بنانے والے ایڈم ووگز موجود ہیں جبکہ 503 کی برتری بھی حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آسٹریلوی کپتان کب تک بلے بازی کو جاری رکھتے ہیں؟ کیا اِس بار بھی ٹیم کو ڈیکلئیر کرکے گیند بازوں پر اعتماد کا اظہار کریں گے یا پھر تمام کھلاڑیوں کے آوٹ ہونے کا انتظار کریں گے؟