بلے بازوں کے لیے ”دہشت“ کی علامت، مچل جانسن کے کیریئر کے یادگار ترین لمحات

0 1,064

دورِ جدید کی کرکٹ کا جو سب سے بڑا سرمایہ ہے، وہ ایک اچھا تیز باؤلر ہے۔ بلے باز کو تو بہت طاقت، اختیار اور حیثیت مل گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ دہائی قبل کے مقابلے میں اب کرکٹ کا کھیل کہیں زیادہ بلے بازوں کی طرف جھک گیا ہے۔ اس مشکل عہد میں جن کھلاڑیوں نے اس مشکل کام کو باحسن وخوبی انجام دیا، انہی میں سے ایک آسٹریلیا کے مچل جانسن تھے جنہوں نے اچانک بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کا دوسرا مقابلہ ان کے کیریئر کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوا۔

ایک ایسے وقت میں جب آسٹریلیا کو آئندہ فتوحات کے لیے جانسن کے ساتھ کی ضرورت تھی، وہ کرکٹ چھوڑ گئے۔ یوں تیز باؤلنگ کے دلدادہ جانسن کی دلکش گیندبازی نہیں دیکھ سکیں گے۔

مچل جانسن کتنے باکمال گیندباز تھے، اس کا اندازہ ان کے محض 10 سالہ کیریئر میں متعدد اہم مواقع سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہم نے قارئین کے لیے ان کی پانچ بہترین کارکردگیوں کو ایک جگہ اکٹھا کردیا ہے۔

بمقابلہ جنوبی افریقہ، پرتھ 2008ء

Mitchell-Johnson-Perth-2008

یہ وہ مقابلہ تھا جہاں جنوبی افریقہ نے کرکٹ تاریخ کا دوسرا سب سے بڑا ہدف یعنی 414 حاصل کیا۔ گرچہ یہ بہت بڑا کارنامہ تھا، جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ جس کے خلاف یہ ہدف حاصل کیا گیا، وہ کوئی اور نہیں بلکہ دنیا کی خطرناک ترین ٹیم آسٹریلیا تھی۔ اس شکست کے باوجود میچ کی ایک اور خاصیت بھی تھی، مچل جانسن کی تباہ کن گیندبازی۔ مقابلے کے دوسرے روز تیزگیندباز نے 21 گیندوں پر صرف 2 رنز دے کر پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا اور پوری دنیا کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ جانسن نے اننگز میں 61رنز دے کر 8 وکٹیں حاصل کیں اور مقابلے میں 11 شکار کرنے میں کامیاب رہے۔ گوکہ ان کی شاندار گیندبازی آسٹریلیا کو جتوا نہ سکی لیکن یہ کارکردگی بین الاقوامی کرکٹ میں ان کا بہترین تعارف ضرور ثابت ہوئی۔

بمقابلہ جنوبی افریقہ، سنچورین 2009ء

2008ء اور 2009ء میں یکے بعد دیگرے جنوبی افریقہ کے خلاف ہونے والی سیریز میں مچل جانسن نے خود کو نہ صرف خطرناک گیند باز ثابت کیا بلکہ اپنی بلے بازی کے جوہر بھی دکھائے۔ پہلے اُنہوں نے سڈنی کے میدان میں جنوبی افریقہ کپتان گریم اسمتھ کا بایاں ہاتھ توڑا اور پھر ڈربن کے میدان میں دایا۔ یہ 2009ء کی بات ہے جب جوہانسبرگ میں پہلا ٹیسٹ جاری تھا جس میں آل راؤنڈ کارکردگی کی بدولت جانسن کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ اُنہوں نے میچ کا آغاز ناقابل شکست 96 رنز سے کیا، پھر جب گیند بازی کا وقت آیا تو اُس میں بھی چھائے رہے اور صرف 25 رنز دے کر چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ اُن کی شاندار گیند بازی کی بدولت جنوبی افریقہ 466 کے جواب میں صرف 220 رنز ہی بنا پایا۔ گوکہ دوسری اننگز میں جانسن صرف ایک ہی رن بنا پائے مگر گیند بازی کرتے ہوئے ایک بار پھر چار کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ یوں اُنہوں نے میچ میں 8 وکٹیں لیں، اور 96 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر آسٹریلیا کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔

بمقابلہ انگلستان، پرتھ 2010ء

2010-11 کی ایشیز آسٹریلیا کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھی، جہاں اُسے 3-1 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سیریز میں واحد کامیابی، جو اسے پرتھ کے مقام پر ملی تھی، مچل جانسن ہی کی بدولت تھی۔ گوکہ خراب کارکردگی کی وجہ سے انہیں پچھلے مقابلے میں ڈراپ کردیا گیا تھا مگر واپسی پر انہوں نے تمام ناقدین کے منہ بردیے۔ نہ صرف مقابلے میں 9 وکٹیں حاصل کیں بلکہ پہلی اننگز میں 62 رنز کی قیمتی اننگز کھیل کر مجموعے کو 268 رنز تک پہنچایا۔ ایسے وقت میں جب آسٹریلیا 69 رنز پر پانچ بلے باز کھو بیٹھا تھا، یہ جانسن کے علاوہ مائیکل ہسی اور بریڈ ہیڈن کی کارکردگی تھی جس نے ٹیم کو رسوائی سے بچایا۔ گوکہ یہ مجموعہ بھی زیادہ نہیں تھا مگر جانسن نے صرف 38 رنز کے عوض چھ انگلش بلے بازوں کو آؤٹ کرکے حریف کو صرف 187 رنز تک محدود کردیا۔ جانسن کی باؤلنگ اتنی خطرناک تھی کہ آسٹریلیا کے عظیم کپتان رکی پونٹنگ نے اسے ایشیز کے بہترین باؤلنگ اسپیلز میں سے ایک قرار دیا۔ اس نمایاں پرفارمنس کے علاوہ جانسن سیریز میں بجھے بجھے دکھائی دیے اور کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔

بمقابلہ انگلستان، ایشیز 2013-14ء

2013-14ء میں آسٹریلیا کے میدانوں پر کھیلی گئی ایشیز کو مچل جانسن کے کیریئر کا عروج کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ پانچ مقابلوں کی سیریز میں 'مچ' نے 37 وکٹیں حاصل کیں اور آسٹریلیا کی کامیابی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ برسبین میں انہوں کھلاڑیوں کو نشانہ بنایا، ایڈیلیڈ میں 8 وکٹیں لیں، پرتھ کی تیز وکٹ پر 6 حریف بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی، ملبورن میں 8 بلے بازوں کو شکار کیا اور پھر سڈنی کے آخری ٹیسٹ میں 6 انگلش مہروں کو کھسکایا۔ ویسے یہ کہنا انتہائی مشکل ہے کہ سیریز میں کس مقابلے میں جانسن نے سب سے اچھی کارکردگی دکھائی، یہ بالکل ایساہی جیسے والدین سے پوچھا جائے کہ کون سی اولاد زیادہ پسند ہے۔ لیکن اگر اصرار کیا جائے تو شاید ایڈیلیڈ میں 40 رنز دے کر 7 وکٹوں کی کارکردگی کو سب سے نمایاں کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایسی وکٹ تھی جس میں گیندبازوں کو کوئی مدد نہیں مل رہی تھی۔

بمقابلہ جنوبی افریقہ، سنچورین 2014ء

اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جانسن صرف اپنے میدانوں پر شیر تھے، تو یہ خیال اپنے ذہن سے نکال دیجیے کیونکہ اگلے ہی سال جانسن نے دنیا کی خطرناک ترین ٹیسٹ ٹیم کو اُن کے گھر جاکر نقصان پہنچایا۔ سنچورین کے میدان پر آسٹریلیا نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے شان مارش اور اسٹیون اسمتھ کی سنچریوں کی بدولت 397 رنز بنائے۔ مضبوط جنوبی افریقی بیٹنگ لائن کو دیکھتے ہوئے یہ اسکور بھی کم ہی معلوم ہورہا تھا مگر جانسن کی تباہ کن گیند بازی کی بدولت میزبان صرف 206 رنز پر ڈھیر ہوگئے۔ اِس اننگز میں جانسن نے 68 رنز پر 7 کھلاڑیوں کی اننگز تمام کی۔ اِسی طرح جب جنوبی افریقہ کو میچ جیتنے کے لیے 481 کا ہدف ملا تو خیال یہی تھا کہ میچ جیتنا تو مشکل لیکن اچھے مقابلے کی توقع ضرور تھی مگر جانسن نے 59 رنز دے کر 5 وکٹیں لیں اور اس توقع پر بھی پانی پھیر دیا۔ یوں میزبان آسٹریلیا یہ میچ 281 رنز سے اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوگیا۔