ایک روزہ کرکٹ، یونس خان کے لیے ”بھاری پتھر“ ثابت ہوئی

0 1,075

چاہے کوئی مصباح الحق اور شاہد آفریدی کو پسند کرے یا نہ کرے، لیکن عالمی کپ 2015ء کے بعد ان کا ایک روزہ کرکٹ چھوڑ دینا پاکستان کے لیے کتنا بڑا نقصان ہے، اس کا اندازہ اب انگلستان کے خلاف سیریز میں ہو رہا ہے۔ گو کہ پاکستان اس سے قبل بنگلہ دیش کے ہاتھوں بھی سیریز میں شکست کھا چکا ہے لیکن سری لنکا کے دورے پر کامیابی نے کسی حد تک اظہر علی کی زیر قیادت نوجوان دستے کی ناکامیوں کو چھپا لیا تھا۔ اسی کے ازالے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ نے انگلستان کے خلاف ایک روزہ سیریز کے لیے یونس خان کا انتخاب کیا تھا اور بلاشبہ جاری سیریز میں یونس کی موجودگی پاکستان کے لیے بہت بڑا سہارا بنتی۔ لیکن یونس نے پہلے ایک روزہ کھیلتے ہی اچانک محدود اوورز کی کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اور سلیکشن کمیٹی کو زچ کرنے کے علاوہ اس فیصلے نے نوجوان کھلاڑیوں کو بھی کھولتے ہوئے پانی میں ڈال دیا ہے۔ سوائے پہلے مقابلے میں کامیابی کے اب تک پاکستان کوئی نمایاں کارکردگی پیش نہیں کرسکا اور اب سیریز اس مقام پر کھڑی ہے کہ اسے برابر کرنے کے بھی لالے پڑ گئے ہیں اور آخری ایک روزہ میں صرف انگلستان ہی سیریز جیت سکتا ہے، پاکستان نہیں کیونکہ چار مقابلوں کی سیریز میں مہمان کو دو-ایک کی ناقابل شکست برتری حاصل ہے۔

یونس خان کے اس بے وقت فیصلے کا خمیازہ اب اظہر علی اور ان کے جوانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ گو کہ یونس خان ڈیڑھ دہائی میں ایک روزہ میں اپنی افادیت اس طرح ثابت نہیں کر سکے تھے، اس کے باوجود وہ پاکستان کرکٹ کا ایک اہم ستون تھے اور دستے میں ان کی موجودگی نئے کھلاڑیوں کے لیے ڈھارس بنتی کہ ابھی یونس خان موجود ہیں، جن کا بلّا اس وقت ٹیسٹ میں خوب رنز اگل رہا ہے۔ جس دن ایک روزہ میں چلا تو پھر اگلی پچھلی تمام کسریں نکالے گا۔

بہرحال، پاکستان کرکٹ کی تاریخ ایک باب بند ہوگیا ہے۔ یونس خان کے پرستار حیران، بورڈ پریشان اور انہیں منتخب کرنے والے پشیمان ہیں اور پاکستان کی بیٹنگ لائن طوفانِ انگلستان میں غوطے کھا رہی ہے۔ اس راز سے بہرحال کبھی تو پردہ اٹھے گا لیکن جو ظاہر اور عیاں ہے وہ یونس خان کا اب تک کا ایک روزہ کیریئر ہے۔

younis-khan

یونس خان نے 2000ء میں سری لنکا کے خلاف پہلا ایک روزہ بین الاقوامی کھیلا تھا۔ 275 رنزکے تمام میں جب پاکستان کے تمام اہم کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے تو یونس خان ساتويں نمبر پر آئے اور ڈٹ گئے۔ 41 گیندوں پر 46 رنز کی اننگز کا خاتمہ رن آؤٹ پر ہوا اور اگر وہ یوں میدان بدر نہ ہوتے تو یقیناً پاکستان کو اپنے پہلے ہی مقابلے میں جتوا دیتے۔ آغاز یادگار نہ ہونے کے بعد تو ایک روزہ کرکٹ کا ہمیشہ یونس خان سے خدا واسطے کا بیر رہا۔ یونس خان ٹیسٹ میں پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین بلے باز بنے لیکن ایک روزہ میں وہ ایک اوسط بلے باز سے بھی نیچے ہی دکھائی دیے۔ خودہی اندازہ لگا لیں، ٹیسٹ میں بیٹنگ اوسط 54 جبکہ ایک روزہ میں صرف 31، ٹیسٹ میں 31 سنچریاں اور ایک روزہ میں محض 7۔ اس کے باوجود 265 ایک روزہ مقابلوں کے کیریئر چند ایسے مواقع ضرور تھے جب یونس خان نے فاتحانہ کارکردگی دکھائی۔ اگر یونس خان 2009ء تک پیش کی جانے والی کارکردگی کو برقرار رکھتے تو بلاشبہ آج کہیں زیادہ بڑے مقام پر موجود ہوتے اور عین ممکن تھا کہ وہ پاکستان کے لیے سب سے زیادہ ون ڈے رنز بنانے والے بیٹسمین بھی بن جاتے۔ 2009ء سے پہلے تین سال کے عرصے میں انہوں نے 41 کے اوسط کے ساتھ 2125 رنز بنائے، وہ بھی 82 کے شاندار اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ۔ انہوں نے کیریئر کی 7 میں سے پانچ سنچریاں اسی عرصے میں بنائیں، جن میں روایتی حریف بھارت کے خلاف تین یادگار سنچری اننگز بھی شامل تھیں۔ جو یادگار تو تھی ہیں، لیکن فاتحانہ بھی تھیں۔

اس کے بعد یونس کو اچانک زوال آ گیا، گو کہ انہیں مستقل مواقع ملے لیکن یونس صرف 25 کے اوسط کے ساتھ رنز بنا سکے یہاں تک کہ 2013ء میں اپنا مستقل مقام کھو بیٹھے۔ گزشتہ چار سالوں میں انہیں صرف 31 مقابلے کھیلنے کا موقع دیا گیا اور پچھلے پانچ، چھ سالوں میں انہوں نے صرف ایک بار سنچری بنائی۔

یونس خان کو پاکستان کی قیادت بھی ملی۔ جس میں انہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی صورت میں 2009ء میں ایک بہت بڑا تحفہ پاکستان کو عطا کیا لیکن ایک روزہ کافی عرصے سے پاکستان کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہا ہے۔ جس طرح مصباح الحق، شاہد آفریدی اور اظہر علی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اس طرح یونس بھی 21 میں سے صرف 9 میچز میں فتوحات حاصل کرپائے، یہاں تک کہ شاہد آفریدی کو کپتان بنا کر انہیں ذمہ داری سے فارغ کردیا گیا۔

یونس ایک روزہ میں بڑے مقابلوں کے بڑے کھلاڑی بھی ثابت نہیں ہوئے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران آنے والے تمام چار عالمی کپ ٹورنامنٹس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ وہ 2003ء میں جنوبی افریقہ اور 2007ء میں ویسٹ انڈیز میں پہلے ہی مرحلے میں باہر ہوجانے والے دستوں کا حصہ تھے اور 2011ء میں سیمی فائنل اور 2015ء میں کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کرنے والے اسکواڈز میں بھی شامل تھے، لیکن ذاتی طور پر مکمل طور پر ناکام رہے۔ عالمی کپ کی 18 اننگز میں یونس کا اوسط صرف 21 رہا، اور وہ محض 349 رنز ہی بنا سکے۔

ٹیسٹ میں شاید ہی یونس کے ریکارڈز کوئی پاکستانی بلے باز توڑ پائے، لیکن شاید انہیں اس امر کا ادراک ہی نہیں ہوسکا کہ وہ محدود اوورز کی کرکٹ کے کھلاڑی نہیں ہیں۔ اگر 2009ء میں ٹی ٹوئنٹی کے ساتھ ایک روزہ سے بھی ریٹائرمنٹ لے لیتے تو شاید آج انہیں اس طرح الوداع نہ کہنا پڑتا۔ بہرحال، آج پاکستان ٹیسٹ درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے اور اس میں جہاں دیگر کئی کھلاڑیوں کی محنتیں اور کاوشیں ہیں، وہیں یونس خان کا بھی بڑا کردار ہے اور جب وہ آئندہ کچھ عرصے میں 10 ہزار ٹیسٹ رنز بنانے والے پہلے پاکستانی بلے باز بنیں گے تو ان کی ایک روزہ کارکردگی کو سب بھول جائیں گے۔

مقابلے رنز بہترین اننگز اوسط اسٹرائیک ریٹ سنچریاں نصف سنچریاں صفر چوکے چھکے
یونس خان 265 7249 144 31.24 75.29 7 48 22 578 56