تاریخ کے غیر مقبول ترین کپتان

2 1,507

ضروری نہیں کہ ایک اچھا بلے باز عمدہ گیندباز بھی ہو۔ اسی طرح اگر کوئی اچھی فیلڈنگ کرتا ہے تو لازمی نہیں کہ وکٹ کیپنگ کے معاملے میں بھی اتنا ہی تاک ہو۔ یہی کچھ معاملہ کپتانی کا بھی ہے۔ بہترین کھلاڑی ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ قیادت میں بھی خود کو منوا لے گا۔ یہ ایسا کام ہے جیسے بکریوں کے ریوڑ کو ہانکنا، بظاہر آسان لگتا ہے لیکن ہے بہت مشکل۔ ذرا بھی بے صبری دکھائی تو معاملہ الٹ ہو سکتا ہے۔ اگر ہم تاریخ کے غیرمقبول ترین کرکٹ کپتانوں کی فہرست مرتب کریں تو حیران کن طور پر اس میں کئی چوٹی کے کھلاڑیوں کے نام بھی آتے ہیں مگر قیادت کے معاملے میں ان کا ریکارڈ برا رہا۔

10۔ ڈوگلس جارڈن - انگلستان

douglas-jardine

آسٹریلیا کے حلقوں میں 'باڈی لائن' حکمت عملی کے خالق کے طور پر بدنام انگلستان کے ڈوگلس جارڈن اپنے ساتھی کھلاڑیوں میں بھی تکبر اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے ناپسندیدہ تھے۔ 'باڈی لائن' سے مراد یہ ہے کہ گیندباز بجائے وکٹوں کا نشانہ لینے کے بلے بازوں کے جسم کو نشانہ بنائے۔ 1932ء کی ایشیز سیریز میں باڈی لائن پر باؤلنگ کرنے سے انکار کرنے والے گبی ایلن نے کہا تھا کہ "ہمارے لوگ جتنی نفرت جنگ لڑنے والے جرمنوں سے سے کرتے تھے، اس سے کہیں زیادہ جارڈن سے کرتے ہیں۔ کبھی کبھار تو میرا دل کرتا تھا اس کو مار ہی دوں۔" ایک اور ساتھی کھلاڑی نواب پٹودی نے کہا تھا کہ "مجھے کہا گیا تھا کہ جارڈن میں کچھ اچھی چیزیں ہیں۔ تین مہینے گزر گئے، مجھے تو ایک بھی اچھی بات نظر نہیں آئی۔"

9۔ جاوید میانداد – پاکستان

Javed-Miandad

ایک زبردست بلے باز، جو ہمیشہ حریف کے لیے خطرہ بنے رہے اور طویل عرصے تک پاکستان کے لیے ٹیسٹ میں سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ بھی انہی کے پاس تھا، جو ابھی پچھلے مہینے ہی یونس خان نے اپنے نام کیا ہے۔ جاوید میانداد کے انداز کی جنگجویانہ قیادت ہر کھلاڑی کے بس کی بات نہیں تھی۔ ان کے خلاف بغاوت کی ابتدا دو کھلاڑیوں سے ہوئی اور بتدریج یہ معاملہ بڑھتا چلا گیا۔ میانداد وہ خوش نصیب کھلاڑی تھے، جن کو صرف 22 سال کی عمر میں پاکستان کی باگ ڈور دی گئی۔ لیکن شاید اتنی کم عمری میں قیادت ملنا ٹھیک نہیں تھا اور میانداد کے ساتھ یہی ہوا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب ٹیم کے آدھے سے زیادہ کھلاڑیوں نے ان کی کپتانی میں کھیلنے سے انکار کردیا۔ میانداد کو سری لنکا کے دورے پر نئے کھلاڑیوں کے ساتھ جانا پڑا۔ پھر 10 سال بعد ایک مرتبہ پھر قرعہ فال میانداد کے نام نکلا، وہ دوبارہ کپتان بنے اور یہاں ایک اور بغاوت ان کی منتظر تھی۔ اس بغاوت کا براہ راست الزام میانداد نے عمران خان پر عائد کیا تھا۔ میانداد نے یہ تک کہا کہ وہ پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ الزام لگا رہے ہیں، لیکن وہ اس حرکت کے پیچھے عمران خان کے عزائم کے بارے میں نہیں جانتے۔ ہوسکتا ہے وہ اس لیے کررہے ہوں کہ اگر میں کامیاب ہوگیا تو لوگ عمران خان کے اچھے دور کو بھول جائیں گے۔

8۔ آرچی میک لارن – انگلستان

Archie-McLaren

1902ء کی ایشیز کے ابتدائی چار مقابلوں میں انگلستان کی شکست کے بعد ویسے ہی کھلاڑیوں کے حوصلے زمین بوس ہو چکے تھے، ایسے میں کپتان آرچی میک لارن کی مقبولیت کا گراف خراب رویے اور متکبرانہ مزاج کی وجہ سے تیزی سے گر رہا تھا۔ لیکن معاملات اس وقت زیادہ تیزی سے خراب ہوئے جب اولڈ ٹریفرڈ کے میدان پر پانچویں ٹیسٹ سے قبل آرچی نے اپنے کھلاڑیوں کی طرف دیکھا اور ہتک آمیز لہجے میں کہا کہ "یہ دیکھو، کیسے کھلاڑی دیے گئے ہیں مجھے؟" تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے ارونبھا سین گپتا کہتے ہیں کہ وہ انتہائی گھمنڈی اور بدتمیز کھلاڑی تھے اور ان کا ضدی پن اندر کی اچھائیوں کو سامنے آنے ہی نہیں دیتا تھا۔

7۔ برائن لارا -ویسٹ انڈیز

brian-lara

اگلے بلے باز کے طور پر ویسٹ انڈیز کے برائن لارا کو جانچا جائے تو ان کی دلکش بیٹنگ کا کوئی ثانی نہ ملے گا مگر جب بطور کپتان انہیں پرکھنے کی کوشش کی جائے تو وہ ہرگز مثالی نہیں ہیں۔ لارا کو اپنی کپتانی کے زمانے میں بہت سی مشکلات کا سامنا رہا۔ سابق ویسٹ انڈین کپتان رچی رچرڈسن لارا کی قیادت کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ غیر متاثر کن تھی۔ جبکہ ویسٹ انڈیز ہی کے ہینڈی برائن کا کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ ٹیم کے چند کھلاڑی لارا کو پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ لارا کی صلاحیتوں سے جلتے ہیں۔ اس بارے میں سابق آسٹریلوی کپتان اسٹیو واہ کا کہنا تھا کہ لاراکی شخصیت کی خوبیوں کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں، مگر ان کے ساتھ ساتھ ایک خامی بھی تھی، وہ یہ کہ لارا موڈی انسان ہیں، جن کے ساتھ کام کرنا کبھی کبھار ناممکن ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کمی کے باوجود وہ ہمیشہ توجہ کا مرکز رہے۔ اسٹیو واہ کی بات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ "لارا کی مشکل طبیعت رکھنے والے انسان ہیں، جس کی وجہ سے انہیں سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی اچھے کپتان ثابت نہیں ہوئے۔"

6۔ ڈان بریڈمین – آسٹریلیا

98l/33/huty/12668/04

آخر کرکٹ تاریخ میں ڈان بریڈمین سے عظیم بلے باز کون ہوگا؟ ہمارے دعوے سے زیادہ اہمیت ان کے ریکارڈز کی ہے۔ 99 رنز کا اوسط ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا یہ دعویٰ غلط نہیں۔ لیکن ڈان جتنے بڑے بلے باز تھے، اتنے ہی ناکام کپتان ثابت ہوئے۔ بریڈمین کی انتہا پسندانہ سوچ اور اسی کے زیر سایہ بننے والی حکمت عملی دیگر کھلاڑیوں کے لیے ناقابل برداشت بن جاتی تھی۔ جب دوسری جنگ عظیم چل رہی تھی تو دیگر کھلاڑیوں کے برعکس بریڈمین کو لڑنے کے لیے نہیں بھیجا گیا تھا اور یہی بات ان کے ساتھی کھلاڑیوں کو پسند نہیں آئی۔ آسٹریلیا کی فضائیہ کے پائلٹ رہنے والے آل راؤنڈر کیتھ ملر کہتے ہیں کہ "جنگ کے بعد ایک مقابلے کے دوران جب میں گیندبازی کررہا تھا تو ڈان نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اپنے دوست بل ایڈرچ کو اور تیز گیند پھینکوں تاکہ وہ گھبرا جائیں۔ مجھے ان کے مطالبے سے بہت تکلیف ہوئی۔ میں نے کہا کہ جو شخص پانچ سال جنگ لڑ سکتا ہے، وہ تیز گیند سے نہیں گھبراسکتا۔" لیکن بریڈمین کے ایسے مطالبات سے میرا دل ٹیسٹ کرکٹ سے کھٹا ہوگیا۔

5۔ والی ہیمنڈ – آسٹریلیا

مندرجہ بالا کھلاڑیوں کی طرح والی ہیمنڈ کی بلے بازی پر بھی کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ وہ بلاشبہ ایک عظیم کھلاڑی تھے مگر بدقسمتی سے قیادت کے معاملے میں وہ بھی اپنا نام اچھے الفاظ میں نہ لکھوا سکے۔ وہ بہت ہی خاموش طبیعت انسان تھے، اتنے کہ ساتھی کھلاڑی لین ہٹن بتاتے ہیں کہ آسٹریلیا میں 1946ء کی ایشیز کے دوران ایک طویل سفر درپیش تھا۔ تیز رفتاری سے چلتی گاڑی میں ہیمنڈ کی باتیں بھی موسم کی طرح سرد اور خشک تھیں۔ انہوں نے پورے راستے میں صرف ایک جملہ کہا، وہ تھا ’’نظر رکھنا کہ راستے میں کوئی گیراج مل جائے، ہمیں پٹرول کی ضرورت ہے‘‘۔ ان نجانے یہ ان کے مزاج کا مسئلہ تھا یا کچھ اور، لیکن انگلستان کے خلاف تین-صفر کی شکست کے بعد ہیمنڈ نے کرکٹ کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کرلیا۔

4۔ کم ہیوز – آسٹریلیا

یہ وہ دور تھا جب آسٹریلیا قیادت کے بحران سے گزر رہا تھا۔ جب بطور کپتان گراہم یالپ ناکام ہوئے تو کم ہیوز کو یہ اہم ذمہ داری سونپی گئی۔ ایسا لگا جیسے کپتان بنتے ہی اس معصوم کھلاڑی کی قسمت میں ناکامیاں لکھ دی گئیں کیونکہ بیشتر ساتھی کھلاڑی ہیوز کو بطور کپتان دیکھا ہی نہیں چاہتے تھے۔ معروف تیز گیندباز ڈینس للی صرف اس بات پر غصہ تھے کہ ان کے دوست روڈ مارش کو یہ عہدہ کیوں نہیں دیا گیا۔ شاید یہی غصہ تھا جس کی وہ سے للی نیٹس میں مسلسل ہیوز کو تیز باؤنسرز سے پریشان کرتے رہے یہاں تک کہ ایک گیند ان کے ہاتھ پر لگی اور اتنی شدت سے لگی کہ ایکس-رے کروانے کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن کوئی نقصان ظاہر نہیں ہوا۔ مگر للی کو سکون کہاں تھا؟ جب ان کا تیز بیمر ہیوز کے بالکل قریب سے گزر گیا تو بھی انہوں نے للی نے ’’سوری‘‘ پر اکتفا کیا۔ تب بھی ہیوز نے بڑے تحمل سے کہا ’’کوئی بات نہیں‘‘۔ لیکن للی نے جواب دیا کہ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ گیند تجھے لگی نہیں۔ معاملہ اسی طرح چلتا رہا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کی بدتمیزی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ہیوز اتنا تنگ ہوگئے کہ 28 مقابلوں میں قیادت کے بعد دل شکستہ ہوکر خیرباد کہہ گئے۔ واضح رہے کہ ان 28 مقابلوں میں ہیوز کو صرف چار میچز میں کامیابی مل سکی۔

3۔ گراہم یالپ – آسٹریلیا

گراہم یالپ دنیا کے پہلے بلے باز تھے جنہوں نے ہیلمٹ پہنا، شاید خود پر ہونے والی گولا باری کے خوف سے۔ بطور کپتان ان کی کارکردگی انتہائی ناقص تھی اور پھر 1978ء کی ایشیز کے بعد تو ان کی پوزیشن بہت زیادہ کمزور ہوگئی۔ سیریز سے پہلے انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی زیر قیادت آسٹریلیا چھ-صفر سے سیریز جیتے گا مگر جب نتیجہ آیا تو وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ انگلستان نے سیریز پانچ-ایک سے جیتی۔ روڈنی ہوگ اور گیری کوزیئر ببانگ دہل یالپ کی مخالفت کررہے تھے۔ کوزیئر نے واضح طور پر کہا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں یالپ کی مدد کروں تو کپتان تو مجھے بنانا چاہیے تھا کیونکہ وہ قیادت کی یالپ سے بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔" یہ نفرت اس وقت مزید بڑھ گئی جب ایک میچ میں ہوگ نے کوزیئر سے کہا کہ یالپ کو کہو کہ ایک فیلڈر گلی میں کھڑا کرے تو کوزیئر نے جواب دیا، خود کہہ دے میں اس غلیظ آدمی کے منہ نہیں لگنا چاہتا۔ بعد ازاں یالپ نے اپنی کتاب Lambs to the Slaughter میں اس بارے میں لکھا۔

2۔ جیفری بائیکاٹ – انگلستان

geoffrey-boycott

جب کھلاڑی کپتان سے خوش نہ ہوں، اور یہاں تک پہنچ جائے کہ اسے ہٹانے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے کو تیار ہوں تو کپتان کو سمجھ جانا چاہیے کہ وہ اپنا مقام کھو چکا ہے اور پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ کچھ ایسا ہی 1978ء کے دورۂ نیوزی لینڈ میں انگلستان کے کپتان جیفری بائیکاٹ کے ساتھ بھی ہوا۔ بائیکاٹ کی دھیمی حکمت عملی سے ان کے نائب باب ولس اور دیگر کھلاڑی بیزار تھے۔ بس میچ کی رفتار بڑھانے کے لیے باب ولس نے این بوتھم کو نمبر چار پر ترقی دے کر میدان روانہ کردیا مگر روانگی سے قبل بوتھم کو کہا کہ جتنی جلدی ہو سکے بائیکاٹ کو میچ سے باہر کردینا۔ بوتھم نے "لبیک" کہتے ہوئے ایک ایسا رن لینا چاہا جو ہر گز موجود نہیں تھا اور یوں بائیکاٹ رن لینے کے لیے دوڑے اور آؤٹ ہوگئے۔ جاتے ہوئے بوتھم سے دریافت کیا کہ یہ کیا کیا؟ تو بوتھم نے صاف گوئی سے کہا تمہیں آؤٹ کرانے کے لیے۔

1۔ مہاراج کمار – بھارت

1936ء کے دورۂ انگلستان سے قبل مہاراج کمار وزیاناگرم، جن کا پورا نام وجے آنند گاج پتھی راجو تھا، نے صلاحیتیں نہ ہونے کے باوجود محض اپنے اثر و رسوخ اور پیسے کی بدولت ٹیم کی قیادت حاصل کی، مگر اس کا حق ادا نہ کرسکے۔ وہ ابتدا ہی سے پریشان تھے اور ساتھی کھلاڑیوں کی تنقید کا نشانہ بھی بنتے رہے۔ کارکردگی اس قدر خراب کہ بلے باز ہونے کے باوجود نویں نمبر پر کھیلنے آتے اور چھ اننگز میں صرف 33 رنز ہی بنا سکے۔ تنقید کرنے والوں میں آل راؤنڈر لالا امرناتھ پیش پیش تھے اور اس تنقید کو مہاراج نے بدتمیزی کا رنگ دیتے ہوئے امرناتھ کو ٹیم سے باہر کردیا۔ پھر یہ بھی سننے میں آیا کہ مہاراج نے مشتاق علی کو حکم دیا کہ وہ ان کی مخالفت کرنے والے وجے مرچنٹ کو رن آؤٹ کروائے اور ایسا کرنے پر اسے سونے کی گھڑی بھی دی گئی۔ لیکن جب ٹیم واپس بھارت پہنچی تو مہاراج پر اتنی تنقید ہوئی کہ وہ برداشت نہ کرسکے اور کرکٹ کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔