محمد عامر کی بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی، مخالفت شدید تر

2 1,042

پاکستان کے گیندبازوں نے گزشتہ روز انگلستان کے خلاف آخری ایک روزہ میں جو کارکردگی دکھائی ہے، اس کے بعد تو محمد عامر کی واپسی کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں کارنامے دکھانے کے بعد اب عامر بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کھیلنے کے لیے پر تول رہے ہیں اور عین اسی وقت پر ان کی مخالفت بھی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ایک طرف محمد حفیظ کا کہنا ہے کہ انہوں نے بی پی ایل کھیلنے سے صرف اس لیے انکار کیا کیونکہ محمد عامر کو اسی ٹیم میں شامل کیا گیا تھا اور وہ 'پاکستان کو بدنام کرنے والے کھلاڑی ' کے شانہ بشانہ نہیں کھیل سکتے۔ اب ان کی آواز میں آواز ملی ہے کیون پیٹرسن کی۔ انگلستان کے بلے باز کہتے ہیں کہ بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی پر محمد عامر کا خیرمقدم نہیں ہونا چاہیے۔

2010ء میں لارڈز کے مقام پر انگلستان کے خلاف ٹیسٹ کے دوران جان بوجھ کر نو-بالز پھینکنے، اور اس کے بدلے میں سٹے بازوں سے رقم حاصل کرنے، کے معاملے میں پانچ سال کی طویل پابندی کے خاتمے کے بعد اب محمد عامر ہر سطح کی کرکٹ کھیل سکتے ہیں اور حال ہی میں بی پی ایل 2015ء میں چٹاگانگ وائی کنگز نے انہیں منتخب کیا ہے اور یوں وہ بین الاقوامی سطح پر جلوہ گر ہو رہے ہیں البتہ ابھی تک پاکستان کی نمائندگی نہیں کی اور نہ ہی اس کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں کھیلنے والے انگلستان کے کھلاڑیوں میں سے اب تک کسی نے لب کشائی نہیں کی تھی، بس آج کیون پیٹرسن بولے ہیں اور دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ اسپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو ہمیشہ کے لیے کرکٹ چھوڑ دینی چاہیے۔

پیٹرسن کہتے ہیں کہ "میں جانتا ہوں، اُس وقت عامر کی عمر صرف 18 سال تھی، وہ بہت ہی باصلاحیت باؤلر تھا، وہ کمزور مالی پس منظر رکھتا تھا، اس لیے چند سیکنڈوں کے کام کے لیے بڑی رقم دیکھ کر پھسل گیا، لیکن میری نظر میں ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ انہیں کرکٹ میں دوبارہ نہیں آنا چاہیے۔ میں ان کا بدخواہ نہیں، وہ اپنی زندگی میں خوش رہیں لیکن کرکٹ ہماری ذات سے بڑا ہے۔ ہم رہیں نہ رہیں، لیکن کرکٹ موجود رہے گا۔ یہاں ہم ایمانداری سے کھیلتے ہیں، جان لڑاتے ہیں، مثبت رویہ اپناتے ہیں، منفی بھی کھیل جاتے ہیں لیکن ان سب کے ساتھ بدعنوانی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایسا کرتے ہوئے پکڑے جانے والے پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے۔

جنوبی افریقی نژاد پیٹرسن نے کہا کہ "لارڈز ٹیسٹ وہ دن میری کرکٹ کا بدترین دن تھا۔ ہمارے کھلاڑیوں کا تو باؤلنگ کا دل نہیں کررہا تھا۔ ہم نے کسی گرنے والی وکٹ کا جشن نہیں منایا۔ ہمیں شدید غصہ تھا اور یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کھلاڑیوں نے کیا حرکت کی ہے۔ یہاں بہت ایماندار کھلاڑی ہیں، جو پوری محنت سے کھیل رہے ہیں، اگر آپ ان کے ساتھ بے ایمانی کرتے ہیں تو معذرت کے ساتھ آپ کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔"