اگر پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنا چاہتا ہے تو۔۔۔۔!

5 1,186

انگلستان کے ہاتھوں پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں جس طرح کلین سویپ ہزیمت کا سامنا اٹھانا پڑتا ہے اس کو دیکھتے ہوئے "کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی" کہ چند ماہ بعد بھارت میں ہونے والے ورلڈ ٹی ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کچھ اچھے نتائج دے پائے گا۔

شکست کی بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں، اتنی شاید کامیابی کی بھی نہیں ہوتیں اس لیے اس کا تجزیہ ہونا چاہیے جو سخت بھی ہوگا اور کچھ کڑوا بھی لیکن اگر علاج کرنا ہے، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بہتر نتائج دینے ہیں تو ایسا کرنا ہوگا۔ پاکستان کو انگلستان جیسے "ماٹھے" ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ کو متحدہ عرب امارات میں شکار نہ کرسکا وہ زیادہ بڑے اسٹیج پر اور بھارت میں مچل اسٹارک، ٹرینٹ بولٹ اور ڈیل جیسے باؤلرز کا سامنا کیسے کرے گا؟ شاید اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

اگر پاکستان چاہتا ہے کہ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتے، یا کم از کم نمایاں ٹیموں میں شمار ہو تو انتظامیہ کو یہ اہم فیصلے لینے پڑیں گے۔

قیادت کی تبدیلی:

ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی قیادت اس وقت ایک ایسے کھلاڑی کے پاس ہیں جو کبھی اپنی ٹیم کو قومی ٹی ٹوئنٹی کپ بھی نہیں جتوا سکا۔ شاہد آفریدی سے یہ امید رکھنا کہ وہ عالمی سطح پر پاکستان کو اعزاز جتوائیں گے، بیکار کی بات ہے۔ بطور ٹی ٹوئنٹی کھلاڑی "لالا" کی ٹیم میں جگہ ضرور بنتی ہے لیکن معاملات چلانے کے لیے اس وقت آفریدی سے کہیں زیادہ مناسب شعیب ملک ہیں۔ ان کا ٹی ٹوئنٹی ریکارڈ، بیرون لیگ کرکٹ کھیلنے کا تجربہ اور حالیہ کارکردگي بھی بہترین ہے۔

اجتماعی تجربے میں اضافہ:

انگلستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی کے تینوں مقابلوں میں پاکستان اس مقام تک پہنچا کہ جیت سکتا تھا اور تینوں مرتبہ اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ایسا کیوں؟ کیونکہ ٹیم کے اندر ٹھنڈے دماغ کے اور تجربہ کار کھلاڑی کم ہیں۔ پاکستان نے 2012ء میں مصباح الحق کو جبری طور پر ٹی ٹوئنٹی سے خارج کیا حالانکہ وہ دنیا بھر میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیل رہے ہیں اور اس وقت بھی بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں سرگرم ہیں۔ دوسری جانب عبد الرزاق ہیں۔ ان جیسا آل راؤنڈر دنیا کے کسی اور ملک میں ہوتا تو اسے 'پوجا' جاتا لیکن ہمارے ہاں رزاق کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا گیا۔ اگر اس وقت بھی عبد الرزاق کی واپسی کے لیے راہ ہموار کی جائے تو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں اتنا وقت باقی ہے کہ وہ مکمل طور پر فٹ ہو سکتے ہیں۔ باؤلنگ کے شعبے میں ہمیں فیصلہ کن وار کرنے کی صلاحیت رکھنے والا کوئی باؤلر چاہیے۔ ٹی ٹوئنٹی میں شاہد آفریدی اور سعید اجمل کے علاوہ جس پاکستانی گیندباز نے ہمیشہ تہلکہ مچائے رکھا ہے وہ عمر گل ہیں۔ بار بار فٹنس مسائل سے دوچار ہونے کے باوجود عمر گل میں ابھی خاصی کرکٹ باقی ہے۔ وہ اس وقت فرسٹ کلاس کرکٹ میں حبیب بینک کی جانب سے زبردست کارکردگی بھی دکھا رہے ہیں۔ اگر انہیں واپس لایا جائے تو "ڈیتھ اوورز" کا معاملہ بہتر ہو سکتا ہے۔ ورنہ اس وقت تو حال یہ ہے کہ پاکستان آخری پانچ اوورز میں انگلینڈ سے بھی 60، 70 رنز کھا جاتا ہے۔

hafeez-afridi

ٹیم کمبی نیشن کی بہتری:

اوپنر کی حیثیت سے احمد شہزاد اور عمر اکمل کا استعمال۔ جی ہاں، آپ نے ٹھیک پڑھا ہے ہم عمر اکمل ہی کی بات کر رہے ہیں۔ نچلے نمبروں پر عمر کی ناکامی کے بعد انہیں اوپنر کی حیثیت سے کھلا کر اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے۔ فیلڈنگ پابندیوں کے ابتدائی پانچ اوورز میں انہیں کھل کر کھیلنے کا موقع بھی ملے گا اور اعتماد بحال ہونے کے بعد وہ اپنی صلاحیتوں سے حقیقی انصاف بھی کر پائیں گے۔

مڈل آرڈر میں عبد الرزاق، شعیب ملک اور اگر ہو سکے تو مصباح الحق پاکستان کے لیے بہترین انتخاب ہو سکتے ہیں۔ سرفراز یا محمد رضوان کو بطور وکٹ کیپر کھلایا جا سکتا ہے لیکن اگر عمر اکمل کی وکٹ کیپنگ کا تجربہ جاری رکھنا ہے تو ایک اچھا بلے باز نمبر 6 پر آ سکتا ہے جیسا کہ صہیب مقصود، اگر ان کی فارم واپس آ جائے تو، اور بابر اعظم۔ شاہد آفریدی بطور آل راؤنڈرکھیل سکتے ہیں لیکن تھوک کے حساب سے ٹیم میں آل راؤنڈرز کی شمولیت پاکستان کے لیے سخت نقصان دہ ہوگی کیونکہ اس کے نتیجے میں نہ ہی بیٹنگ چلے گی اور نہ ہی باؤلنگ ہوگی جیسا کہ ابھی انگلستان کے خلاف سیریز میں ہوا۔

اب باری آتی ہے گیندبازوں کی کہ وہ کون سے چار مستند باؤلرز ہیں، جنہیں اگر بیٹنگ نہ بھی کرنا آتی ہو تو ایک ناکارہ آل راؤنڈر سے کہیں بہتر ہو۔ ان میں پہلا نام ہے محمد عامر کا، انہیں لازمی ٹیم میں واپس آنا چاہیے ورنہ پاکستان کو شکست تو ہوگی ہی ساتھ ہی وہاب ریاض اور دیگر اچھے باؤلرز کے کیریئر کو بھی خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے جنہیں دوسرے اینڈ سے زیادہ سپورٹ نہیں ملے گی۔ عامر اپنے جرم کی سزا پا چکے ہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ کاٹ چکے ہیں کیونکہ انہوں نے کم عمر ہونے کے باوجود تمام منصوبہ سازوں جتنی سزا کاٹی ہے۔ وہ ڈومیسٹک کے بعد اب بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں بین الاقوامی کرکٹرز کے خلاف بھی خوب کارکردگی پیش کر رہے ہیں۔ ماضی میں جب پاکستان ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتا تھا تو شاہد آفریدی اور عبد الرزاق کی طرح عامر کی کارکردگی بھی نمایاں تھی۔

محمد عامر اور عمر گل کا ساتھ دینے کے لیے محمد عرفان یا وہاب ریاض کو کھلایا جا سکتا ہے۔ عرفان گو کہ ابھی اچھی باؤلنگ نہیں کروا رہے لیکن مختصر فارمیٹ کے لیے عرفان بہترین باؤلر ہیں۔ انہیں ٹیسٹ یا ایک روزہ میں آزمانے سے کہیں زیادہ اچھا ہے کہ یہاں کھلایا جائے۔ اس سے ان کے کیریئر کو بھی طویل کیا جا سکتا ہے۔ طویل قامت اور برق رفتاری کے ساتھ باؤلنگ بلے بازوں کے لیے ہمیشہ مشکل رہتی ہے اور ان کا مجموعی اکانمی ریٹ بھی کم ہے۔

ایک نوجوان کھلاڑی عماد وسیم، اچھے گیندباز بھی ہیں اور آخری نمبروں پر بلے بازی بھی کر سکتے ہیں۔ ان کی باؤلنگ بہت عمدہ ہے اور بھارت کی دھیمی وکٹوں پر شاہد آفریدی کے ساتھ مل کر قہر ڈھا سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ فٹ ہو جانے کے بعد عماد کی ٹیم میں لازمی جگہ ہونی چاہیے۔

مختلف کھلاڑی مختلف وقت میں فارم یا فٹنس کے مسائل سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ ان کے متبادل کے طور پر دیگر کھلاڑیوں کو آزمایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یا تو مکمل طور پر تجربے کی حق میں جاتا ہے یا صرف نوجوان ہونا شرط قرار پاتا ہے۔ گزشتہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں سبھی پرانے کھلاڑیوں کو شامل کرلیا گیا، نتیجہ سب کے سامنے ہے اور اگر آئندہ ٹورنامنٹ میں سب نئے کھلاڑی کھلائے گئے تو بھی نتیجہ کچھ مختلف نہ ہوگا۔ ضرورت ہے ایک بہتر کمبی نیشن اور اچھے قائد کی۔