غضب کیا ترے وعدے کا اعتبار کیا

4 1,287

ڈیڑھ سال قبل جس دن پاک-بھارت باہمی تعلقات کی بحالی نوید سنی تھی اور دونوں ملکوں کے درمیان آئندہ 8 سال میں 6 باہمی سیریز کھیلنے کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے تھے، اس روز سے لے کر آج تک ایک دن ایسا نہ تھا جب شک کی حدود پار کر کے یقین کی سرحدوں میں قدم رکھا ہو۔ اس حقیقت پسندی کو شاید کچھ لوگ قنوطیت قرار دیں لیکن جسے محض خدشہ سمجھا جا رہا تھا اب وہ بہت بڑی حقیقت بن کر سامنے کھڑا ہے، بقول پاکستان کرکٹ بورڈ کے 50 ملین ڈالرز کا نقصان اپنے ساتھ لیے۔ کہاں 6 سیریز کا وعدہ، تین کی میزبانی کی نوید؟ اور کہاں یہ کہ پہلی سیریز ہی کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ خاص طور پر چیئرمین پی سی بی "غضب کیا ترے وعدے کا اعتبار کیا" کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے مابین حقیقی سیریز دو ٹیسٹ، پانچ ایک روزہ اور تین ٹی ٹوئنٹی مقابلوں پر مشتمل تھی اور اس کی میزبانی پاکستان کے پاس تھی یعنی اس کا انعقاد متحدہ عرب امارات میں ہونا تھا۔ پہلے پہل تو عرصے تک بھارتی کرکٹ بورڈ اس سیریز کو خاطر میں ہی نہیں لایا لیکن جب وہاں قیادت تبدیل ہوئی تو اس نے ایسا ظاہر کیا کہ وہ دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی میں سنجیدہ ہے۔ پی سی بی حکام کو ممبئی بلوایا گیا، اور شدت پسند ہندوؤں کے ایک معمولی مظاہرے سے "گھبرا" کر انہیں بغیر ملاقات کے واپس بھیج دیا گیا۔ اگر تھوڑی بہت عقل بھی دماغ کے کسی نہاں خانے میں پائی جاتی تو یہ اشارہ ہی کافی تھا لیکن پاکستان کو ایک کے بعد دوسری 'گولی' دی جاتی رہی اور معاملہ ٹلتا رہا۔ کبھی متحدہ عرب امارات میں نہ کھیلنے کی شرط، کبھی بھارت میں کھیلے جانے کی بات، کبھی سری لنکا میں کھیلنے پر رضامندی۔ بہرحال، معاملات یہاں تک پہنچ گیا کہ دسمبر آن پہنچا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے 7 دسمبر کی ڈیڈلائن دی اور کہا کہ اگر اس تاریخ تک کوئی حتمی بات نہیں کی گئی تو سیریز منسوخ سمجھی جائے گی۔

اب ذرا آخری 'گولی' کے بارے میں سنیں: بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستان کا دورہ کر رہی ہیں، باہمی کرکٹ سیریز پر حتمی فیصلہ وہی اسلام آباد میں سنائیں گی۔ سشما آئیں، انہوں نے دیکھا اور وہ چلی گئیں، ایک لفظ ادا کیے بغیر۔ پاکستان کرکٹ بورڈ، اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ، ان کے دورے میں ان کی شکل ہی دیکھتے رہے کہ اب ان کے منہ سے کوئی "مبارک جملہ" نکلے گا لیکن کوئی لفظ برآمد نہ ہوا۔ یوں ایک گری پڑی سیریز کی آخری امید بھی تمام ہوئی۔ اس پورے عہد میں بھارتی کرکٹ بورڈ نے ایسا رویہ اختیار کیے رکھا، جیسے اس کے معاملات میں حکومت ہند کی اجازت کے بغیر پتّا بھی نہیں ہلتا۔

اس پورے چکر میں سب سے زیادہ خوار 82 سالہ چیئرمین پی سی بی شہریار خان ہوئے۔ ان کا دل تو چاہتا ہوگا کہ پھٹ پڑیں۔ ایک دو بار انہوں نے سخت جملے ادا بھی کیے لیکن مجموعی طور پر انہوں نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا۔ وہ امید و ناامیدی کی ہر ہر کیفیت سے گزرے۔

بہرحال، اب تو تقریباً طے ہو گیا ہے کہ پاک-بھارت سیریز، جی ہاں! دو ایک روزہ اور ایک ٹی ٹوئنٹی والی بھی، اب نہیں ہونی ۔ بھارت کا تو کچھ نہیں بگڑا، البتہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو سپر لیگ جیسے اہم ایونٹ سے پہلے 50 ملین ڈالرز کا بڑا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔

ویسے کوئی 'اللہ کا بندہ' ایسا بھی ہو سکتا ہے جسے اب بھی امید ہو، اس کے لیے ذرا بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری انوراگ ٹھاکر کا تازہ بیان، موصوف کہتے ہیں کہ "سرحد پر فائرنگ ہو رہی ہے، آپ کے بندے مارے جا رہے ہیں، اور آپ کرکٹ کھیلیں گے؟ بالکل نہیں۔ ہر بھارتی اس سے انکار کرے گا۔ میری ذاتی رائے مختلف ہو سکتی ہے، لیکن مجھے بھارتی کرکٹ بورڈ کے اراکین کی رائے کا احترام کرنا ہوگا کیونکہ میں بورڈ کا سیکریٹری ہوں۔"