ویسٹ انڈیز کا ”شاندار“ استقبال، اننگز اور 212 رنز کی بدترین شکست

1 1,066

بے سر و سامانی کے عالم میں ویسٹ انڈیز کو سری لنکا کے ہاتھوں تینوں طرز کی سیریز میں بدترین شکست ہوئی اور اب بھی ہی اس کے دامن سے چمٹی ہوئی ہے۔ ہوبارٹ میں آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ کا محض ڈھائی دن میں خاتمہ ہوگیا ہے اور ویسٹ انڈیز کو ایک اننگز اور 212 رنز کی شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

نیوزی لینڈ کے خلاف مصنوعی روشنی میں کھیلے گئے تاریخی ٹیسٹ میں جب مچل اسٹارک زخمی ہوئے ہوں گے تو ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں نے یقیناً سکھ کا سانس لیا ہوگا کہ اب ایک مشکل سیریز میں کچھ آسانی میسر آئے گی لیکن گزشتہ سال مارچ میں اپنا آخری ٹیسٹ کھیلنے والے جیمز پیٹن سن دوبارہ موقع ملا تو انہوں نے ثابت کردیا کہ آسٹریلیا کبھی صرف ایک گیندباز پر تکیہ نہیں کرتا بلکہ یہاں ہر باؤلر میچ جتوانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور انہوں نے دوسری اننگز میں صرف 27 رنز دے کر 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے اس پر مہر تصدیق بھی ثبت کی۔

مقابلے کے آغاز ہی سے آسٹریلیا نے اپنے خطرناک عزائم ظاہر کردیے تھے۔ بلے بازوں نے ابتدائی چار سیشن ہی میں 583 رنز بنا ڈالے تھے، وہ بھی محض چار وکٹوں کے نقصان پر۔ جب کپتان اسٹیون اسمتھ کو لگا کہ اتنے بڑے مجموعے کے بعد ان کے گیندبازوں کے لیے آسانی پیدا ہوگئی ہے تو انہوں نے اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کیا، جس کی خاص بات ایڈم ووجس اور شان مارش کی 449 رنز کی شراکت داری تھی۔ ووجس نے ناقابل شکست 269 رنز بنائے جبکہ مارش 182 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔ اگر اس شراکت داری کی بات کی جائے تو یہ تاریخ کی چھٹی سب سے بڑی شراکت داری تھی، جبکہ آسٹریلیا کی جانب سے کسی بھی وکٹ کے لیے دوسری سب سے طویل ساجھے داری بھی۔ یہی نہیں آسٹریلیا کے میدانوں میں تاریخ میں کبھی کسی نے مل کر اتنے زیادہ رنز نہیں بٹورے۔ پھر ویسٹ انڈیز کے گیندباز اتنے بھی کمزور نہیں تھے کہ آسٹریلیا کے دستے میں مستقل جگہ پانے کے لیے جدوجہد کرنے والے ان دونوں بلے بازوں کے ہاتھ اتنے دیر ڈٹے رہتے۔ یعنی ووجس اور مارش نے چوتھی وکٹ کے لیے عالمی ریکارڈ شراکت داری جوڑ کر کمال کر دکھایا ہے۔

ویسٹ انڈیز کی پہلی اننگز صرف 223 رنز پر تمام ہوئی۔ اس میں بھی ڈیرن براوو کے دلیرانہ 108 رنز شامل ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ اگر وہ 89 رنز پر 5 کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کے باوجود نہ ڈٹے رہتے تو ویسٹ انڈیز کا کیا حال ہوتا؟ بہرحال، حال تو اس کے باوجود بھی کچھ اچھا نہیں رہا۔ پوری اننگز میں براوو کے علاوہ صرف دو بلے باز ہی دہرے ہندسے میں داخل ہو سکے۔

پہلی اننگز میں 360 رنز کے خسارے کے بعد اب ویسٹ انڈیز کو 'فالو-آن' کرنا پڑا۔ آسٹریلیا کے کپتان چاہتے تو مزید بلے بازی کی مشق کر سکتے تھے لیکن انہوں نے گیندبازوں پر ہی بھروسہ کیا اور میچ کو مزید طول دینے کے بجائے تیسرے ہی دن مکمل کرنے کی ٹھانی۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مشکل حالات میں ویسٹ انڈیز کے بلے باز اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے اور شکست سے بچنے کی کوشش کرتے مگر شاید ویسٹ انڈیز کو یہ مقابلہ ہارنے کی کچھ زیادہ ہی جلدی تھی۔ دوسری اننگز میں پوری ٹیم صرف 36 اوورز کی محتاج ثابت ہوئی اور صرف 148 رنز پر اننگز لپیٹ دی گئی۔ یوں ویسٹ انڈیز کو ایک اننگز اور 212 رنز کی شکست کھانا پڑی۔ یہ اس لیے بھی شرمناک ہے کیونکہ اس میں کریگ بریتھویٹ کی 94 رنز کی مزاحمتی اننگز بھی شامل ہے۔ ابتدائی چھ بلے بازوں میں وہ واحد تھے جو دہرے ہندسے میں داخل ہوئے۔ راجندر چندریکا اور جرمین بلیک ووڈ تو صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے جبکہ ڈیرن براوو 4 اور مارلون سیموئلز 3 رنز پر آؤٹ ہوئے۔

کہاں پہلے روز صرف تین وکٹوں پر 438 رنز کا بننا اور اس کے بعد ویسٹ انڈیز کا 6 وکٹوں پر 200 کا ہندسہ عبور کرنا اور کہاں آخری روز 14 وکٹیں گرنے کے بعد میچ کا فیصلہ ہوجانا۔ بہرحال، پیٹن سن نے دوسری اننگز میں کمال کی باؤلنگ کی۔ 8 اوورز میں صرف 27 رنز دے کر 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ تین وکٹیں جوش ہیزل ووڈ کو ملیں۔ جنہوں نے پہلی اننگز میں بھی 4 بلے باز آؤٹ کیے تھے۔

گو کہ آسٹریلیا کی کامیابی میں گیندبازوں کا بڑا کردار تھا مگر میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ناقابل شکست 269 رنز پر ایڈم ووجس کو دیا گیا۔

فرینک وورل ٹرافی کا اگلا مقابلہ اب 26 دسمبر کو باکسنگ ڈے پر سے ملبورن میں کھیلا جائے گا جبکہ تین جنوری سے سال نو کا پہلا اور سیریز کا آخری ٹیسٹ سڈنی میں کھیلا جائے گا۔