ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی میزبانی، بھارت میں نیا ہنگامہ

0 1,018

ایک ہفتہ قبل بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے مختصر ترین طرز کی کرکٹ کے اہم ترین ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے شیڈول کا اعلان کیا، جس میں بتایا گیا کہ مارچ 2016ء میں شروع ہونے والے ٹورنامنٹ کے مقابلے کہاں کہاں کھیلے جائیں گے۔ شائقین کے لیے یہ خبر یقیناً بہت اہمیت رکھتی ہے کہ دنیائے کرکٹ کے اہم ترین مقابلے اب قریب سے قریب تر آتے جا رہے ہیں اور جن شہروں کو میزبانی دی گئی ہے، وہاں کے باسیوں کی تو خوشی دیدنی ہے۔ مگر شیڈول جاری ہوتے ہیں میزبان بھارت میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ ہے بھارتی کرکٹ بورڈ کا مبینہ ”غیر منصفانہ رویہ“، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ’’اندھا بانٹے ریوڑیاں‘‘ جیسا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ آئی سی سی نے بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کیم شاورت سے 35 میں سے 17 مقابلے دھرم شالا اور ناگ پور میں کروانے کا اعلان کیا۔ جب یہ اعلان ہوا تو اندازہ ہوا کہ 17 مقابلے دو شہروں میں باقی 18 میچز 5 شہروں میں ہوں گے۔ وہ دو شہر بھی کون سے؟ ایک ناگ پور جو بھارتی کرکٹ بورڈ کے موجودہ صدر شاشنک منوہر کا شہر ہے اور یہ 9 مقابلوں کی میزبانی کرے گا جبکہ بورڈ کے سیکریٹری انوراگ ٹھاکر دھرم شالا کے رہنے والے ہیں، جہاں 8 مقابلے کھیلے جائیں گے، جن میں پاک-بھارت اہم ترین میچ بھی شامل ہے۔

بھارت میں کرکٹ میدانوں کی کمی نہیں، کل 20 میدان ایسے ہیں جہاں بین الاقوامی مقابلوں کا انعقاد ہوتا ہے، جبکہ 15 ٹیسٹ میزبانی کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسے اہم ٹورنامنٹ کے لیے صرف 7 میدانوں کا انتخاب، اور ان میں سے بھی میچز کی بڑی تعداد دو میدانوں کو دینا، کان کھڑے کردینے کے لیے کافی ہے۔

دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ پاک-بھارت اہم ترین مقابلہ دھرم شالا میں کروانے کا اعلان کیا گیا ہے حالانکہ میدان میں صرف 23 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ بھارت میں ایسے کئی میدان موجود ہیں جہاں 30 سے 50 ہزار افراد بیٹھ سکتے ہیں بلکہ کلکتہ کے ایڈن گارڈنز میں تو 66 ہزار سے زیادہ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔

ابھی ایک ماہ قبل ہی بی سی سی آئی نے بھارت میں مزید 6 میدانوں پر ٹیسٹ کرکٹ کی منظوری دی ہے، لیکن ان 6 میں سے صرف ایک کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے مقابلوں کی میزبانی دی گئی ہے، جی ہاں! دھرم شالا کو۔ جبکہ باقی پانچ میدان یعنی پونے، راج کوٹ، اندور، رانچی اور وشاکھاپٹنم کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ چنئی کو بھی بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے حالانکہ بھارت کی کرکٹ تاریخ میں مدراس کو بہت اہمیت حاصل ہے لیکن تعمیرات کا بہانہ بنا کر اسے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی میزبانی سے محروم کردیا گیا ہے۔ البتہ ویمنز ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے چار مقابلے یہاں ضرور ہوں گے جسے اس میدان کی تاریخی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ”زیادتی“ کہنا چاہیے۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے انعقاد کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کونسل بھارت کو 55 کروڑ بھارتی روپے سے زیادہ کی رقم دے گی۔ اگر 35 مقابلوں میں برابر تقسیم کیا جائے تو فی مقابلہ یہ ایک کروڑ 60 لاکھ روپے کی بھاری رقم بنتی ہے۔ امید ہے اب آپ کو بات سمجھ آ گئی ہوگی کہ جن جن میدانوں پرمقابلوں کا انعقاد ہو رہا ہے یقیناً مقامی کرکٹ ایسوسی ایشن بھی خوب فائدہ اٹھائیں گی۔ اگر بھارتی بورڈ چاہے تو پیسوں کی تقسیم کا فارمولا میدانوں میں تماشائیوں کی گنجائش کے مطابق بھی طے ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا بھی تو دھرم شالا کو 8 مقابلوں کی میزبانی پر 8 کروڑ تو ملیں گے ہی۔ حیرت ہے بھارتی بورڈ میں کوئی ایسا شخص نہیں جو ان من مانیوں پر تنقید کرے۔ البتہ بورڈ سے باہر کرکٹ کے چاہنے والے حلقوں میں آواز اٹھ رہی ہے اور امکان ہے کہ یہ معاملہ پارلیمان تک پہنچ جائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو ممکن ہے کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء کے شیڈول میں تبدیلی آئے۔