[سالنامہ 2015ء] سال کے بڑے تنازعات

0 1,041

سال 2015ء اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اب اپنے اختتامی ایام میں داخل ہو گیا ہے۔ ہر کھیل کی طرح کرکٹ میں بھی تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں، گو کہ میدان میں ان کی شدت فٹ بال اور رگبی میں ہاتھا پائی جیسی نہیں ہوتی لیکن اختلاف تو یہاں ہوتا ہے، ناراضگی بھی اور امپائروں سے ناخوشی بھی۔ کرکٹ میں مختلف وجوہات کی بناء پر تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں اور سال 2015ء بھی ان سے خالی نہیں رہا۔ اس سال سامنے آنے والے بڑے تنازعات کچھ یہ تھے:

ڈی آر ایس تنازع

Brendon-McCullum

یہ تنازع ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے اہم ترین مرحلے پر پیش آیا۔ مصنوعی روشنی میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ مقابل تھے۔ اس مقابلے کا انعقاد ٹیسٹ کرکٹ کی بہت بڑی کامیابی سمجھی گئی اور دنیا بھر میں اس مقابلے کا ہنگامہ بھی مچا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا جب امپائر کے ایک غلط فیصلے نے مزا کرکرا کردیا۔

ہوا دراصل یہ کہ مقابلے کے دوسرے روز آسٹریلیا کے بلے باز ناتھن لیون بیٹنگ کر رہے تھے کہ مچل سینٹنر کی ایک گیند پر سویپ کی کوشش کے دوران گیند ان کے بلے کا کنارہ چھوتی ہوئی فیلڈر کے ہاتھ میں چلی گئی۔ بھرپور اپیل کی گئی لیکن فیلڈ امپائر سندرام روی نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ معاملہ تیسرے امپائر کے پاس چلا گیا، جو نائجل لونگ تھے۔ انہوں نے طویل سوچ بچار کے بعد فیلڈ امپائر کے فیصلے کی ہی حمایت کی حالانکہ ہاٹ اسپاٹ میں واضح نظر آ رہا تھا کہ گیند بلّے کو چھوتے ہوئے گئی ہے۔ کیونکہ اب امپائروں کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی نشریات کا حصہ ہوتی ہے اس لیے لونگ کو یہ کہتے سنا گیا کہ ہاٹ اسپاٹ میں بلّے پر گیند کا نشان تو دکھائی دے رہا ہے مگر اسنکو میٹر میں ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ لیون کے خلاف جس وقت یہ اپیل کی گئی تھی اس وقت نیوزی لینڈ کے 202 رنز کے جواب میں آسٹریلیا صرف 116 رنز پر آٹھ کھلاڑیوں سے محروم ہو چکا تھا۔ نئی زندگی ملنے کے بعد لیون نے نہ صرف اہم ترین 34 رنز بنائے، نویں وکٹ پر وکٹ کیپر پیٹر نیول کے ساتھ 74 رنز کی وہ شراکت داری بھی قائم کی جس کی وجہ سے آسٹریلیا تاریخی مقابلے میں کامیابی سے ہمکنار ہوا۔

محمد حفیظ بمقابلہ محمد عامر

گزشتہ ماہ بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کی تیاریاں جاری تھیں تو محمد حفیظ کے ایک بیان نے دنیا بھر میں ہنگامہ کھڑا کیا۔ حفیظ کا کہنا تھا کہ بی پی ایل کی فرنچائز چٹاگانگ وائی کنگز نے انہیں بہت اچھی پیشکش کی تھی، لیکن انہوں نے صرف اس لیے ٹھکرائی کیونکہ وہ محمد عامر کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہتے۔ محمد عامر پانچ سال قبل اسپاٹ فکسنگ میں ملوث قرار پائے تھے اور اتنا ہی عرصہ پابندی بھگتنے کے بعد اب کرکٹ میں واپس آئے ہیں۔

محمد حفیظ کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی ایسے کھلاڑی کے ساتھ نہیں کھیلیں گے جس نے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ کسی فرد کے خلاف ہرگز نہیں بلکہ یہ ان کا اصولی موقف ہے۔ ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی دوسری ٹیم نے پیشکش کی تو وہ ضرور بی پی ایل کھیلیں گے اور آخر میں ایسا ہی ہوا۔ ڈھاکہ ڈائنامائٹس نے انہیں بعد ازاں خرید لیا اور انہوں نے آدھا سیزن کھیلا۔ مگر محمد حفیظ اس وقت سخت مشکل کا شکار ہوگئے جب ان کی ٹیم کا مقابلہ چٹاگانگ وائی کنگز سے پڑ گیا۔ اس دوران ان کا سامنا محمد عامر سے بھی ہوا جن کے خلاف وہ کوئی رن نہ بنا سکے اور بالآخر آؤٹ ہوگئے۔ اس پر سوشل میڈیا پر حفیظ کا بہت مذاق اڑایا گیا جو افسوسناک بات ہے۔

ناگپور کے ناگ

nagpur-wicket

ناگپور کی وکٹ نے بلے بازوں کی صفوں اور ساتھ ہی دنیائے کرکٹ میں ہلچل مچا دی۔ یہاں بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان سیریز کا تیسرا ٹیسٹ کھیلا گیا تھا، بھارت جیتا ضرور لیکن تنقید کے نشتر سہہ کر۔ اکثریت کا کہنا ہے کہ ایسی وکٹ کی تیاری کا صرف ایک ہی مقصد دکھائی دیتا ہے کہ بھارت کے اسپن گیند بازوں کو غیر معمولی اور ناجائز برتری ملے۔ یاد رہے کہ عالمی نمبر ایک جنوبی افریقہ اس مقابلے میں پہلی اننگز میں صرف 79 رنز پر ڈھیر ہوگیا تھا۔ مہمان بلے بازوں کے لیے گیند کھیلنا تک ناممکن ہو گیا تھا۔ پہلے ہی دن گیند اس بری طرح ٹرن ہو رہی تھی کہ گویا پہلا نہیں بلکہ پانچواں دن ہو۔

ایسی وکٹ کی تیاری پر بھارت پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ وہ گھر پر مقابلہ کھیلنے کا کچھ زیادہ ہی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میچ ریفری جیف کرو نے باضابطہ طور پر اپنی رپورٹ میں وکٹ کو 'خراب' قرار دیا جس کے بعد بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے بھی باقاعدہ تنبیہ جاری کی۔

یہ سب معاملات اپنی جگہ مگر جب معاملہ پہنچ جائے سوشل میڈیا تک، تو اندازہ لگالیں کہ وہاں کیا ہوا ہوگا؟ وکٹ کی حمایت اور مخالفت کرنے والے اپنے ساز و سامان سے لیس ایک دوسرے پر حملہ آور رہے اور یہ معاملہ میچ کے ختم ہونے کے بعد کئی دن تک جاری رہا۔

فیلڈنگ میں رخنہ

Ben-Stokes

انگلستان اور آسٹریلیا کے درمیان لارڈز کے میدان پر ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ انگلش بلے باز بین اسٹوکس انتہائی متنازع انداز میں 'آبسٹرکٹنگ دی فیلڈ' آؤٹ دیے گئے۔ کرکٹ نے تاریخ میں بہت کم کھلاڑیوں کو اس طرح آؤٹ ہوتے دیکھا ہے۔ ایک روزہ کرکٹ میں اسٹوکس محض چھٹے بلے باز ہیں، جو فیلڈ سے چھیڑ چھاڑ کے مرتکب قرار پائے اور میدان بدر ہوئے۔ پھر ان سے قبل انگلستان کا کبھی کوئی کھلاڑی اس طرح آؤٹ بھی نہیں ہوا۔

قصہ یہ ہے کہ 310 رنز کے تعاقب میں انگلستان 26 ویں اوور میں 3 وکٹوں پر 141 رنز تک پہنچ چکا تھا۔ تب اس اوور میں مچل اسٹارک کی چوتھی گیند پر اسٹوک کا شاٹ براہ راست گیندباز کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ انہوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اسٹوکس کریز سے باہر ہیں، فوراً اسٹرائیکنگ اینڈ پر تیز رفتار تھرو پھینکا۔ گیند براہ راست وکٹوں میں جاتی دکھائی دے رہی تھی لیکن یہاں اسٹوکس سے ایک غلطی ہوئی، جان بوجھ کر یا غلطی سے، انہوں نے گیند کو ہاتھ سے روک دیا۔ ویسے گیند اتنی دور ضروری تھی کہ ان کو چھوئے بغیر نکل جاتی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ فعل غیر ارادی طور پر سرزد ہوا ہو کیونکہ طوفانی رفتار سے آنے والی گیند پر خود کو بچاتے ہوئے ایسا ردعمل ممکن ہے۔ بہرحال، امپائروں نے طویل غور و خوض کے بعد معاملہ ٹی وی امپائر کے حوالے کیا، جنہوں نے اسٹوکس کو واپسی کا پروانہ تھما دیا۔

اس واقعے کے بعد ‘جتنے منہ اُتنی باتیں‘، ہر کوئی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا رہا تھا۔ کسی کا کہنا تھا کہ اس طرح کسی کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا، عین ممکن ہے کہ اسٹوکس نے واقعی خود کو بچانے کے لیے ایسا کیا ہو۔ جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے واضح قوانین کو لانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ مستقبل یہ بھی ممکن ہے کہ گیند باز جان بوجھ کر بلے باز کی طرف گیند پھینکیں اور خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہوا بلے باز آؤٹ قرار دے دیا جائے۔

چیمپئنز کی شرمناک معطلی

Dhoni-CSK

ویسے تو جب سے انڈین پریمیئر لیگ کا آغاز ہوا ہے، تب سے اس کا تنازعات سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسپاٹ فکسنگ کے بعد لیگ کو سب سے بڑا دھچکا دو سابق چیمپئنز چنئی سپر کنگز اور راجستھان رائلز کی معطلی کی صورت میں لگا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل کردہ تین رکنی بینچ نے معاملے کی سماعت کی اور تمام ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چنئی کے مالک گروناتھ مے یپن اور راجستھان رائلز کے مالک راج کندرا کو تاحیات کرکٹ معاملات سے دور رہنے کی سزا سنائی اور ساتھ ہی دو سال کے لیے دونوں ٹیموں کو بھی معطل کردیا۔

اب شائقین کرکٹ کی دو پسندیدہ ترین ٹیمیں دو سال تک میدان میں نظر نہیں آئیں گی جو ان کے لیے تو مایوسی کی بات ہے ہی، لیکن اس سے کہیں بڑھ کر دنیا کی سب سے بڑی لیگ کی ساکھ کو پہنچنے والا بہت بڑا دھچکا ہے۔