آئی سی سی ٹیسٹ کرکٹ کے فروغ کے لیے سرگرم عمل

0 1,056

ٹی ٹوئنٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے کرکٹ کے روایت پسند حلقوں کے بعد اب بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کو بھی پریشان کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی سی سی نے رواں سال یعنی 2016ء میں ٹیسٹ کرکٹ کو پروان چڑھانے پر غور و خوض شروع کردیا ہے۔

آئی سی سی چیف ایگزیکٹو ڈیو رچرڈسن نے کیپ ٹاؤن میں کھیلے گئے جنوبی افریقہ و انگلستان ٹیسٹ کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جون میں ہونے والے عمومی اجلاس میں اس حوالے سے مکمل منصوبہ بندی کی جائے گی کہ ٹی ٹوئنٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے سامنے ٹیسٹ کرکٹ کو کس طرح اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بحال رکھا جائے۔

رچرڈسن کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ رواں سال ٹیسٹ کرکٹ کے حوالے سے ایسے کام کیے جائیں کہ جن سے نہ صرف اس کی دلچسپی قائم رہے بلکہ یہ مالی فائدے کا سبب بھی بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایشیرز ہر حوالے سے ہمیشہ کامیاب رہتی ہے۔ نہ صرف لوگ ایشیز دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ اس سیریز سے مالی فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ یہی نہیں بھارت کی ٹیسٹ سیریز میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس دیگر سیریز میں عوام بہت زیادہ دلچسپی نہیں لیتے جس کی وجہ سے مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت حال میں ہم تمام رکن ممالک سے مشورہ کر رہے ہیں کہ وہ کون سے طریقے ہیں جن سے ٹیسٹ کرکٹ کو دوبارہ اصل مقام دلایا جا سکتا ہے۔ وہ طریقہ ٹیسٹ لیگ ہو سکتا ہے، ٹیسٹ چیمپئن شپ بھی، یا پھر فٹ بال کی طرز پر کوالیفکیشن لیگ۔ جس طریقے پر اتفاق رائے ہوگا، 2019ء تک اس پر عملدرآمد کی کوشش کی جائے گی۔

آئی سی سی عہدیدار نے مزید کہا کہ اس سال اور بھی بہت سے ضروری کام ہے جن پر عملدرآمد کی فوری ضرورت ہے۔ ان میں سرفہرست ریویو سسٹم کو خرابیوں سے پاک کرنا ہے تاکہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں کوئی تنازع نہ کھڑا ہو سکے۔ اس سلسلے میں میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے بات چیت ہوئی ہے کہ وہ بہتر تحقیق کے ذریعے اس معاملے کو حل کرنے میں ہماری مدد کرے۔ ’’اگر ہمیں مطلوبہ نتائج مل گئے تو پھر اس کو ہر اُس جگہ رائج کریں گے جہاں کرکٹ کھیلی جائے گی، پھر کہیں بھی کوئی تفریق نہیں ہوگی۔ پھر بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ سب ملک پر اس پر اتفاق کریں گے لیکن امید ضرور ہے کہ موجودہ اختلافات میں کمی ضرور آئے گی۔‘‘

2016ء کے ارادوں پر رچرڈسن نے مزید کہا کہ اس سال امریکا میں کرکٹ پروان چڑھانے کی بھی کوشش کی جائے گی کیونکہ وہاں کرکٹ کے حوالے سے اچھی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ اس وقت امریکا میں 18 مختلف لیگز ہیں اور کیونکہ وہاں کرکٹ کی زیادہ اہمیت نہیں اس لیے ہر کوئی اپنے حساب سے کھیل رہا ہے اور یہی سبب ہے کہ مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ کھلاڑیوں کے حوصلے بلند کیے جائیں اور امریکا کو بین الاقوامی کرکٹ کی جانب لانے کی کوشش کی جائے کیونکہ وہاں نیوزی لینڈ اور زمبابوے سے زیادہ کرکٹ شائقین موجود ہیں۔